مغربی بلوچستان میں ایسا کوئی دن یا ہفتہ نہیں گزرتا کہ کسی بلوچ کو ایرانی حکام پھانسی پرنہ چڑھادیں۔ہر دن، ہرماہ اور ہرسال زندانوں اورسرعام سڑکوں پر پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مہذب دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں بلوچوں کو سڑکوں کے چوراہوں اور بازاروں میں عوام کے سامنے پھانسی دی جاتی ہے۔ جو ایک سفاکیت کی نشانی اور درندگی کی علامت ہے۔
Posts By: عزیز سنگھور
خود رو تحریکوں کا جنم اور مرگ
بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خود رو تحریکوں نے سر اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ یہ خود رو تحریکیں شخصیات پر انحصار کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کا جنم اور مرگ ایک حقیقی عمل رہا۔ کیونکہ کوئی بھی تحریک شخصیت کی بنیاد پر نہیں چل سکتی بلکہ تحریکیں تنظیمی ڈھانچوں کی بنیاد پر متحرک اور سرگرم ہوتی ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔
تمپ سے ٹورانٹو کی سوگوار زندگی
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ نے شہادت حاصل کرنے کے بعد بلوچ سماج میں ایک اعلیٰ رتبہ حاصل کیا۔ یقیناً اس کی موت ایک افسوسناک عمل تھا۔ مگر دوسری جانب ایک جرات و بہادری کی علامت بھی تھی۔ اس کے خون نے بلوچ معاشرے میں خواتین اور بچیوں کو ایک اعلیٰ مقام دیا۔ اب تک بے شمار لوگ اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کریمہ کا نام دیتے ہیں۔ یہ نام دراصل شہادت کی علامت ہے جس کو ہر بلوچ قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔
جی ہاں! میں غدار ہوں
مکران کی ساحلی پٹی پر عوام کے احتجاج اور دھرنوں کے تسلسل نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کی سرکار کے بھی ہوش اڑادیئے ہیں۔ بیجنگ کے حکمرانوں نے پہلی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر غلط بیانی کا سہارا لیا۔ چینی وزیرخارجہ کے ترجمان کے مطابق گوادر میں چائنیز ٹرالنگ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔
رخشان کو پیاسا نہ ماریں
معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان کے رخشان ڈویژن کو پیاس نے ہلکان کردیا ہے۔انسان توکجا جانور بھی دم توڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہر طرف پیاس نے ڈیرہ ڈالا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے ہر ڈویژن میں اپنی نوعیت کی پوٹینشلز موجود ہیں لیکن رخشان ڈویژن نہ صرف بلوچستان کے دیگر ڈویژن سے امیر ترین ہے بلکہ یہ خطہ دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف ریکوڈک کے مقام پر 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں سونے کے ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
’’ سی پیک ‘‘ سندھو دیش کی علامت ؟
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز بلوچستان کی ساحلی پٹی سے سندھ کی ساحلی پٹی پر منتقل کرنے کے بعددنیا کی نظریں اس خطے پرلگ گئی ہیں۔ساحلی پٹی کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ دنیا کے سرمایہ کاروں نے گوادر سے کراچی میں سرمایہ کاری کے لئے دوڑیں لگانی شروع کردی ہیں تاہم وفاقی حکومت کے پاس کراچی کے انڈیجینس لوگوں کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ معاشی مسائل کے عدم حل کی وجہ سے انڈیجینس لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کراچی میں انڈیجینس لوگوں میں بے روزگاری اور غربت ایک اہم مسئلہ ہے۔ کراچی میں ساٹھ فیصد رقبے پر وفاقی اداروں کا اختیار ہے۔ جہاں انڈیجینس لوگوں کی حصہ داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر سی پیک میں بھی انڈیجینس لوگوں کو حصہ نہیں دیاگیا، انہیں روزگار سمیت دیگر معاملات سے دور رکھاگیا تو سندھ میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ ویسے بھی سندھ میں انسرجنسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سندھ عسکریت پسندی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ رکھتاہے۔
آئی ایم ’’کہورسٹ‘‘
تنظیموں کو شخصیات بناتی ہیں۔ وہی تنظیمیں معاشرے میں اشخاص بناتی ہیں۔ تنظیم سازی اور شخصیت سازی کا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزم ہوتا ہے جس سے معاشرے میں ایک شعوری عمل شروع ہوجاتا ہے۔ فرد کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ بلوچ معاشرے کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انہیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی طلبہ تنظیم مل گئی ہے۔ بی ایس او نے بلوچستان میں ایک سیاسی ڈھانچے کو تشکیل دیا۔ اس سیاسی کلچر نے سیاسی ورکرز پیدا کئے۔بی ایس اواپنے قیام سے لیکراب تک بلوچ تحریک کا ہراول دستہ اور بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
بلوچستان میں خودکشی کے اسباب
بلوچستان میں خود کشی کے واقعات اچانک بڑھنے کی وجوہات میں سرفہرست بڑھتی ہوئی بے روزگاری، عدم معاش، عدم علاج و معالجہ اور مہنگائی سمیتدیگر عوامل شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خودکشی کرنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ حال ہی میں ضلع ڈیرہ بگٹی میں دو خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جبکہ ہر سال سبی، نصیرآباد، لسبیلہ، کیچ، پنجگور، چاغی، خضدار، آواران، گوادر، لورالائی اور کوئٹہ میں بھی خودکشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال بلوچستان میں ایک سے دو سو سے زائد افراد خودکشی کر تے ہیں۔
کتاب سے خوف کیوں؟
جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اس سے بات چیت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو کجا بلکہ طلبا کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ۔ انہیں تعلیمی اداروں سے لاپتہ کیا جارہا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق کی جگہ کتاب ہے۔ آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ مسلح جتھوں کے لئے کچھ اور پالیسیاں جبکہ بلوچ طلبا کے لئے کچھ اور پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے دوطالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیاگیا جس پر طلبا احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طلبا نے ان کی بازیابی کے لئے یونیورسٹی کے مین گیٹ کو تالے لگادیئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈمک اور نان اکیڈمک سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیاگیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی نے طلبا کمیٹی کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ وہ چار دن کے اندر دونوں لاپتہ طلبا کو بازیاب کروائیں گے مگر چار روزگزرنے کے بعد بھی ان کی بازیابی ممکن نہ ہوسکی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ جس کا لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان’’ بلوچیت‘‘ کی علامت
’’گوادر کو حق دو تحریک ‘‘کے بانی اور سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مظلوم اور محکوم عوام کی آواز بن چکے ہیں۔ وہ ایک شخص سے ایک تحریک کا روپ دھار چکے ہیں۔ وہ قومی جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایک آواز پر پورے بلوچستان کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے گوادر میں ایک تاریخی جلسہ عام کرکے تاریخ رقم کردی۔ اب انہوں نے گوادر کے جی ٹی روڈ پر سینکڑوں افراد کے ساتھ دھرنا دیا ہے۔ یہ دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔