پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سندھ کے لئے ڈیموگرافک بم ثابت ہوگا۔ کراچی کی ساحلی پٹی پر سی پیک کے منصوبوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے شہر اور گردونواح کی اراضی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ مختلف ہاؤسنگ اسکیمز بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ نہ صرف ہاؤسنگ اسکیمز بلکہ کراچی میں الگ شہر بنانے کے منصوبے بھی زیرغور ہیں۔ دوسری جانب بعض انڈیجینس لوگوں کی آبادی اور اراضی پر سرکاری اداروں اور لینڈ مافیا کی نظریں ہیں۔
Posts By: عزیز سنگھور
مطالعہ پاکستان کے طلباء بھی لاپتہ
بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں طلبا اور سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور چھاپوں کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں مہینے میں 38 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کردیاگیا جن میں اکثریت بلوچ طلبا کی ہے۔بلوچستان یونیورسٹی سے 2 طلبہ کے لاپتا ہونے پر ساتھی طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے طلبہ کے احتجاج پر تین رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
’’ڈیرہ جات‘‘ بلوچستان سے پنجاب کا سفر
جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے ڈیرہ جات کے بلوچ اپنی قومی شناخت آہستہ آہستہ کھو دیں گے۔ ان کی زبان اور ثقافت زوال پذیر ہونے کی جانب گامزن ہو جائے گی۔ خطے میں پنجابی اور سرائیکی کلچر بلوچ کلچر پراثر انداز ہورہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ مزید بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ڈیرہ جات کے میدانی علاقوں میں آباد بلوچ اپنی زبان سے ناآشنا ہورہے ہیں۔ ان کی مادری زبان پر سرائیکی زبان کا غلبہ ہے۔ کوہ سلیمان کے نیچے کے علاقے جن میں تونسہ، بھکر، راجن پور وغیرہ شامل ہیں کی آبادی کی مینٹل گروتھ اور کلچرل گروتھ دوسرے کلچروں سے مکس ہوگئی ہے۔ بلوچی اور سرائیکی کا کمبنیشن بن گیاہے۔ مستقبل میں میدانی علاقے کے بلوچ برائے نام بلوچ رہ جائیں گے۔ ظاہر ہے نسل تو تبدیل نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ کلچروثقافت اور زبان سے محروم ہوجائیں گے۔ جبکہ اوپر سے جنوبی پنجاب صوبہ بن جانے سے بلوچ اپنی قومی شناخت سے محروم ہوجائیں گے۔
سی پیک کا مستقبل؟
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مرکز کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد کراچی کی ساحلی پٹی کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ قاسم پورٹ سے لیکر کراچی پورٹ، دیھہ لال بکھر (ہاکس بے)، راس موری (کیپ ماؤنز) سمیت مبارک ولیج تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی پر مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پٹی پر سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل مزیدگھمبیر اور بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ حکومتی پالیسیوں پر منحصر ہے کہ آیا وہ مقامی ماہی گیر بستیوں کے لئے مثبت حکمت عملی مرتب کرے گی یا منفی پالیسیاں بنائے گی۔ آیا حکومت کے پاس سمندر کے کنارے آباد قدیم بستیوں کے معاشی و سماجی مسائل کے خاتمے کیلیے کونسی جامع پالیسی ہے؟ سی پیک سے ساحلی پٹی کی سماجی اور معاشی پسماندگی کو کس طرح دور کیا جائے گا؟
اللہ حافظ ’’کراچی ڈیلٹا ‘‘
دریائے لیاری سے پیدا ہونے والا کراچی ڈیلٹا کمرشل سرگرمیوں کے بعد ہمیشہ کے لئے رحلت کرجائیگا۔ یہ ڈیلٹا پچیس سے تیس کلومیٹر پٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں مینگروز کے جنگلات ہیں۔ اس کی موت اس وقت ہوگی، جب دریائے لیاری کے بیک واٹر میں موجود مینگروز کے جنگلات تک کراچی پورٹ توسیع دی جائیگی۔
نصیر آباد: قبائلی نظام اور سیاسی کلچر
ضلع نصیرآباد میں معاشرتی اور سماجی ترقی کی سست رفتاری کی سب سے بڑی وجہ نیم قبائلی نظام ہے۔ نصیرآباد میں ایک پالیسی کے تحت فرسودہ قبائلی نظام کو زندہ رکھاگیا۔ضلع میں آج بھی سرکاری سرداروں اور نوابوں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی سرکار سرداریت کے نیم مردہ ڈھانچے کو آکسیجن فراہم کررہی ہے جس کی وجہ سے قبائلی نظام نے علاقے میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ ضلع میں فرسودہ قبائلی سوچ کو غریب عوام پر مسلط کردیا گیا ہے۔ انہیں قبائل میں تقسیم کردیاگیا ہے۔
سندھ حکومت کی دھوکہ بازی
سندھ حکومت نے ملیر کے عوام ساتھ ایک بار پھردھوکہ دہی کا ارتکاب کیاہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ملیر میں پی ایس 88 کا ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا روٹ تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھاجس پرعوام نے خوشی کے عالم میں پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف مرتضیٰ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انتخاب جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر پرانے روٹ پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیرکا فیصلہ کیا۔ پرانے روٹ پر منصوبے کی تعمیر سے تقریباً دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوگی۔ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ سندھ حکومت بجائے ملیر کے عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرے وہ ضلع ملیر اورگڈاپ میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں پرتوجہ دے رہی ہے۔
مذہبی جماعتوں میں بلوچ نیشنل ازم کا عنصر
بلوچستان خصوصاًمکران میں مذہبی جماعتوں میں بلوچ قوم پرستی کے عنصرنے بلوچ تحریک کومزید مستحکم ومضبوط کیاہے۔ دراصل مذہبی جماعتوں کی حالیہ پالیسیوں میں بلوچ نیشنل ازم کی عکاسی ہوتی ہے۔ مرکزیت (اسلام آباد) کی مضبوطی کی بجائے وہ صوبائی خودمختاری کی بات کررہی ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہیں جس کی وجہ سے یہ جماعتیں عام بلوچ کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ان جماعتوں کی مرکزی پالیسیاں قوم پرستانہ نہیں ہیں۔
’’ مائی چاہ گلی‘‘ کا جنم
’’ بلوچ جدگال ریاست‘‘ کی آخری والی (سربراہ) ’’ مائی چاہ گلی‘‘ نے بلوچ معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مردانہ سماج کے ڈھانچے میں ایک عورت کی سربراہی نے سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کی بنیاد ڈالی۔ فرسودہ رسم اور رواج کی روایت کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح بلوچ معاشرے میں ایک ترقی پسندانہ معاشرے نے جنم لیا جس کو بلوچ معاشرے نے بھی قبو ل کرلیا۔
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
ضلع کیچ ابھی تک تاج بی بی اور رامز خلیل کے قتل کے غم میں مبتلا تھا کہ کیچ کے علاقے ہوشاب میں دو معصوم بچے مارٹرگولہ کے فائر سے جان بحق ہوگئے۔ مارٹرگولے کی فائرنگ سے 7 سالہ اللہ بخش ولد عبدالواحد اور 5 سالہ بچی شرارتوں بنت عبدالواحد موقع پرجاں بحق ہوگئے۔ جبکہ مارٹر کی زد میں آکرایک بچہ مسکان ولد وزیر شدید زخمی ہوا۔ جاں بحق بچوں کی میتیں لے کرلواحقین نے تربت شہر کے مصروف ترین علاقہ شہید فدا چوک پر دھرنا دے دیا۔