ملک بھرمیں گیس بحران بھی شدت اختیار کر تاجارہا ہے۔گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس سے روز مرہ کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں،گھریلواورکمرشل صارفین کو شدید مشکلات کا سامناکرناپڑرہا ہے۔بلوچستان میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوجاتی ہے جبکہ گیس پریشر کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے جس کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں مگر افسوس کہ سوئی گیس حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
وزیراعظم عمران خان نے ریاستی اداروں کے دفاع کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے قانونی اصلاحات اور فوری قانون سازی پر مشاورت کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کا کام ریاستی اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ پاکستان کو استحکام کی پٹڑی سے ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔جنرل (ر) پرویزمشرف کیس کے فیصلے، موجودہ سیاسی صورتحال اور مختلف قانونی امور پر بھی انہوں نے بابراعوان سے ملاقات کے دوران تبادلہ خیال کیا۔بات چیت کے دوران قانونی اصلاحات اورفوری قانون سازی پربھی مشاورت کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ ملک میں معاشی استحکام کو کوئی طاقت بھی نہیں روک سکتی۔وزیراعظم عمران خان سے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کراچی کے اراکین اسمبلی نے ملاقات کی اور شہر قائد کو درپیش مسائل پر انہیں بریفنگ دی۔ اراکین اسمبلی نے انہیں جاری منصوبوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے دوران ملاقات کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اس کی ترقی دراصل ملکی ترقی ہے۔
بلوچستان اسمبلی اراکین نے طلباء یونینز کی بحالی کے حوالے سے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ طلباء یونینز جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتی ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو قیادت طلبہ سیاست سے ہی ملی ہے، یونینز ہی سے لیڈرشپ پیدا ہوتی ہے اگر اس جمہوری عمل کو ختم کیا جائے گا تو طلباء ذہنی طورپر مفلوج ہوجائیں گے۔
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے، پولیس کی فائرنگ سے مزید 3 مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں۔کرناٹکا، اْتر پردیش، بنگلورو اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پابندیاں شہریوں کو احتجاج سے نہ روک سکیں، دہلی کے لال قلعہ، حیدر آباد اور تلنگانہ سے مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا جبکہ معروف بھارتی مورخ اور دانشور رام چندر بھی احتجاج کے دوران گرفتار ہو گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹکا کے شہر منگلور میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی لیکن اس کے باوجود مظاہرین کا احتجاج جاری رہا تو پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ منگلور میں کرفیو نافذ جب کہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے، آسام میں 21 دسمبر سے بند انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر لکھنؤ سمیت اُتر پردیش کے متعدد شہروں میں بھی انٹرنیٹ اور میسجز سروس بند ہیں۔
شہر کی خوبصورتی کو بحال کرنے کیلئے مختلف منصوبوں کے اعلانات کئے گئے جن میں سڑکیں، پْل، انڈرپاسز، پارکنگ پلازے، روڈپارکنگ سمیت تفریح گاہوں کا قیام شامل تھا۔ کوئٹہ کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر کوئٹہ پیکج کا اعلان کیا گیا جس کیلئے اربوں روپے بھی مختص کئے گئے۔ کوئٹہ پیکج کے تحت ایئرپورٹ روڈ، سریاب کی مختلف سڑکوں اور سبزل روڈ کی کشادگی بھی شامل ہے۔ کوئٹہ پیکج کے بیشتر منصوبے ابھی تک تعطل کا شکار ہیں بعض منصوبوں کا سرے سے آغاز تک نہیں کیا گیا، کوئٹہ شہر جو 1935 کے ہولناک زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگیا تھا اس کی دوبارہ تعمیر اُس دور کی آبادی کے تناسب سے کی گئی تھی جو 50 ہزار نفوس پر مشتمل تھی مگر آج شہر کی آبادی 23لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اسی طرح شہر ی ضروریات بھی بہت بڑھ گئیں ہیں۔ کوئٹہ شہر میں اس وقت سہولیات کا فقدان ہے۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس 221 فیصد مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اوگرا نے یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز وزارت پٹرولیم کو ارسال کر دی ہے۔سمری میں سوئی ناردرن سسٹم پر گیس کی اوسط قیمت میں 82 روپے اور سوئی سدرن کے لیے 24 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اوگرا نے روٹی تندوروں کے لیے گیس 221 فیصد، کمرشل سیکٹر کے لیے 31 فیصد اور فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے 153 فیصد تک مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اس سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا،پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔اسی طرح دواؤں کی قیمتوں میں چندماہ کی مختصر مدت میں بے تحاشا اضافہ کیا گیاجس سے ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ پٹرول اور گیس کے بعد بجلی کی قیمتیں بھی مہنگی کر دی گئیں تھیں۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں اکثر مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ ایسی صورت میں نظام کی بہتری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے کیونکہ پھر شخصی مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اور کے پی کے کی نسبت بلوچستان میں سیاسی ڈھانچہ یکسر مختلف رہا ہے۔ بلوچستان کے اسی سیاسی کلچر نے پسماندگی اور کرپشن کو دوام بخشااور اس طرح صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا۔اگر ستر سالہ تاریخ کے دوران ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈز شخصیات کی خواہشات کے مطابق خرچ کئے گئے اور عوامی مفادات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آج بھی بیروزگاری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے شدید مایوس ہوگئے ہیں۔
گزشتہ روز قلات میں گیس کی بندش کے خلاف سیاسی وسماجی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت قلات میں گیس مکمل بند ہے، لوگ مجبوراََ نقل مکانی کررہے ہیں، قلات بلوچستان کا سب سے سرد ترین علاقہ ہے جہاں درجہ حرارت منفی بارہ سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ عوام گیس و بجلی کے محکموں کے رحم کرم پر ہیں۔ قلات میں بنیادی مسائل کے حل کیلئے ہم میدان میں نکلے ہیں احتجاجی مظاہرہ، ریلی نکال کر بیانات جاری کئے مگر مسائل جوں کے توں ہیں بارہا احتجاج ریکارڈ کرانے کے باوجودبھی اس پر توجہ نہیں دی جارہی،انہوں نے کہا کہ گرینڈ الائنس نے مسائل کے حوالے سے سیاسی اورقبائلی عمائدین، عوامی نمائندوں اور آفیسران سے جلد ملاقات اور رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج حقوق کے حصول اور مسائل کے حل تک جاری رہے گا، ہفتہ وار احتجاجی مظاہرہ کرکے احتجاج ریکارڈ کرائینگے، اگلے اجلاس میں قومی شاہراہ پر پہیہ جام اور شٹرڈاؤن کے حوالے سے مشاورت کرکے احتجاج کو مزید وسعت دینگے۔
افغانستان کے صوبے غزنی میں طالبان کے حملے میں 23 افغان فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔افغان میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب سے افغانستان کے مرکزی صوبے غزنی کے ضلع قارا باغ میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 23 فوجی ہلاک ہوئے۔
لاہورپی آئی سی سانحہ ملک کی بدترین واقعات میں شمار ہوچکا ہے کیونکہ ایک ایسے طبقہ نے اسپتال پر حملہ کیا جو قانون کی بالادستی کیلئے خدمات سرانجام دیتا رہا ہے اور جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ایسا اقدام کریں جو پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنے تو یقینا وہ ناقابل برداشت ہے ویسے بھی بڑی بڑی جنگوں میں اسپتالوں کو نشانہ بنانا جنگی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس میں نہتے شہریوں اور بیماروں کا علاج ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے وکلاء نے ڈاکٹرزکے ساتھ اپنی جنگ کے دوران اسپتال کو نشانہ بنایا اور اسپتال پر دھاوا بول دیا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے عمل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تشدد کا عنصر بڑھتا جارہا ہے،برداشت کا مادہ ختم ہوتاجارہا ہے جب چاہے کسی بھی ادارے پر حملہ آور ہونا یا پھر املاک کو نقصان پہنچانا ایک معمول بن چکا ہے۔