
بلوچستان کی روایات اور تاریخ کو بعض جگہ مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں خواتین پر مظالم زیادہ ڈھائے جاتے ہیں انہیں مرد کے مقابلے میں نچلے درجے کی حیثیت دی جاتی ہے یہ وہ زہریلا پروپیگنڈہ ہے جسے کچھ عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
بلوچستان کی روایات اور تاریخ کو بعض جگہ مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں خواتین پر مظالم زیادہ ڈھائے جاتے ہیں انہیں مرد کے مقابلے میں نچلے درجے کی حیثیت دی جاتی ہے یہ وہ زہریلا پروپیگنڈہ ہے جسے کچھ عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف میں دھڑے بندی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین متعدد بارایک دوسرے پر جملوں کے وار کرتے رہے ہیں جس کا مظاہرہ دونوں مرکزی قائدین نے باقاعدہ میڈیا کے سامنے بھی کیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے دونوں کے درمیان موجود اختلافات کو دور کرنے خاص کر میڈیا کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف بات کرنے پر سختی سے ممانعت کی تھی باوجود اس کہ دونوں رہنماؤں کو پارٹی معاملات پرمدِمقابل دیکھاگیا ہے۔
ملکی سیاسی تاریخ کے اوراق ہمارے انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان کے طور پر دکھائی دیتے ہیں ماسوائے 1970ء کے انتخابات کے، جنہیں کسی حدتک شفاف تسلیم کیاجاتا ہے مگر ان انتخابات کے بعد سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ پیش آیا۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کا اس میں کتنا کردار رہا ہے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ آج جس طرح سے جمہوریت، قانون کی بالادستی، اداروں کی آزادی پر بات کی جارہی ہے اگر یہی سیاسی جماعتیں اول روز سے نیک نیتی کے ساتھ اس بیانیہ پر عمل کرتیں تو شاید آج ملک کی صورتحال کچھ اور ہوتی مگر اپنے مفادات کی بھینٹ سب کچھ چڑھایا گیا اور ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔اب اسے سیاسی یا معاشی طور پر لیں نتائج اسی طرح ہی برآمد ہونگے۔
ملک میں مہنگائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے روزمرہ کی اشیاء جو عوام الناس استعمال کرتی ہیں،کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، غریب عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، مہنگائی کی وجہ سے دو وقت کی روٹی توکجا ایک وقت کا گزارا بھی محال ہوکر رہ گیا ہے۔
اسلام آبادلانگ مارچ کاحتمی اعلان جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلآخر کردیا جبکہ اس سے قبل دیگر اپوزیشن جماعتیں مارچ کی تاریخ میں توسیع چاہ رہی تھیں خاص کر مسلم لیگ ن نے اس پر زیادہ زور دیا تھا مگر مولانافضل الرحمان نے شاید یہ پہلے طے کرلیا تھا کہ اپوزیشن کی کوئی جماعت ان کے ساتھ حکومت مخالف مارچ میں شرکت نہ بھی کرے مگر وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہینگے۔
افغان طالبان کے ساتھ پھر ایک بار مذاکرات ہونے جارہے ہیں کیا امریکی صدر نے اپنے کئے گئے ٹویٹ سے یوٹرن لیتے ہوئے ایک بار پھر افغانستان کے مسئلے پر غور کرنا شروع کردیا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوسکے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بیٹھک لگائی جائے البتہ امریکی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے مگر افغان طالبان وفد نے روس، چین کے بعد پاکستان کا دورہ کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغان طالبان اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کیلئے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرر ہے ہیں۔
ماضی میں ایسی حکومتیں برسرِ اقتدار آئیں جنہیں تاجروں کی حکومت کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکیونکہ ان کا پہلا کام قومی اثاثوں کی نیلامی تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاست کے سب سے زیادہ منافع بخش ادارے نیلام کردئیے گئے اور ان اداروں کے حصص بھی فروخت کردئیے گئے جو سالانہ سو ارب روپے سے زیادہ منافع کما رہے تھے۔ سب سے پہلے بنکوں کو نیلام کردیا گیا، بعض بنک اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے دام فروخت کردئیے گئے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کااعلان کیا ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو تمام صوبوں میں یکساں طورپر نافذ ہوگا۔امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ اسکول نہیں ہوں گے۔تمام اسکول اور دینی درسگاہیں حکومتی کنٹرول میں ہوں گے اور کہیں بھی انگریزی میڈیم کے اسکول صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص نہیں ہوں گے۔
ملک کی سیاسی جماعتیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے بیانیہ کے مطابق دیکھنا چاہتی ہیں جس سے ان کی تشہیر زیادہ سے زیادہ ہو جس میں بے شک حقائق کو مسخ کرتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں سیاسی جماعتوں کو ایسا رویہ اپنانے کا سہرا بھی ہمارے میڈیا کے اندر موجود چندصحافیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے چند سیاسی جماعتوں کیلئے نرم گوشہ رکھا یا تو پھر اپنے مفادات کی بھینٹ صحافت کو چڑھایا، مسلم لیگ ن کے دورکی ہی مثال لیجئے جب مسلم لیگ ن کی قیادت پر پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے متعلق بحث میڈیا میں چھڑی تو بعض میڈیا نے اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت کا دفاع بھی کیا کہ یہ سوالات اٹھانے کا مناسب وقت نہیں حالانکہ جب کوئی بڑی خبر انکشاف کی صورت میں سامنے آتی ہے تو عوام میں ایک جستجو پیدا ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں۔
اپوزیشن نے اے پی سی میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا اسی دوران یہ اندازہ بخوبی لگایا گیا تھا کہ یہ ایک مصنوعی اتحادثابت ہوگا اور ہر جماعت اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے سیاسی پتہ کھیلے گی، پہلا جھٹکا اپوزیشن کو اس وقت لگا جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران انہی جماعتوں کے اراکین نے پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے حکومتی امیدوار میر صادق سنجرانی کو ووٹ دیا اور انتہائی حیران کن تماشا بن گیا کہ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے،پھر کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر حکومت کے خلاف کامیاب لانگ مارچ کرینگے۔