
عمران خان کے خلاف جب سے عدم اعتماد کی تحریک آئی ہے وہ خود کو میڈیا اور سیاست میں زندہ رکھنے کے لیے روز نیا شوشا چھوڑتے ہیں اور اعلانات کرتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف جب سے عدم اعتماد کی تحریک آئی ہے وہ خود کو میڈیا اور سیاست میں زندہ رکھنے کے لیے روز نیا شوشا چھوڑتے ہیں اور اعلانات کرتے ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں 10سال تک پی ٹی آئی کی حکومت رہی ہے، جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو اس دوران تقریباََ دہشتگردی پر قابوپالیا گیا تھا اور ایک پُرامن ماحول میں پی ٹی آئی کے حصے میں حکومت آئی تھی، اگر وہ چاہتے تو بہت ساری اصلاحات سمیت مزید اقدامات اٹھاتے، خیبرپختونخواہ میں ترقی کا جال بچھاتے ،اس کے ساتھ ہی سیکیورٹی کے حوالے سے مزید کام کرتی مگر پی ٹی آئی کی جو کارکردگی وفاق میں رہی اسی طرح خیبرپختونخواہ میں بھی رہی اور جتنے بھی ترقیاتی منصوبوں کے دعوے کئے گئے آج کے پی اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔
وفاقی کابینہ نے وزارت قانون کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کر دیا۔ وفاقی کابینہ نے وزارت قانون کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کر دیا۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس چوری، کرپشن اور مالی فراڈ میں ملوث افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے وزارت قانون کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس سے تعاون حاصل کر لیا ہے، بے نامی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے عدالتوں کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزارت قانون نے خصوصی عدالتوں کے لیے چیف جسٹس صاحبان سے رجوع کیا، چیف جسٹس صاحبان کے نامزد کردہ نمائندوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو گزشتہ دنوں راولپنڈی موٹروے سے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ شیخ رشید نے سابق صدر آصف علی زرداری پرایک دہشت گردتنظیم کو رقم دینے اورعمران خان کو قتل کرنے کے متعلق بیان دیا تھا۔پولیس کے پاس موجود پرچے پر شیخ رشید اپنے بیان سے مُکر گئے اور اپنے جاری کردہ ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ میرابیان نہیں، میں اپنے کہی بات پر قائم ہوں کہ عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کے بعدمہنگائی کا جِن مزید بے قابوہونے جارہاہے، اب اشیاء خوردونوش عام لوگوں کی قوت خرید سے بہت دورہو جائیں گی ،لوگ روز مرہ کی اشیاء بھی خریدنہیں سکیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر کس نے کہاں کوتائی برتی، یہ بات اپنی جگہ مگر موجودہ وزیرخزانہ بار با ریہ بتارہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرینگے اور عوام کو ریلیف بھی دینگے۔
بلوچستان میں شاہراہوں کا دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے آرہے ہیں ،اب تک ہزاروں افراد کوئٹہ کراچی سمیت دیگر قومی شاہراہوں پر مختلف حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بلوچستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی تا کوئٹہ قومی شاہراہ کو دورویہ ہونا چاہئے کیونکہ اس روٹ پر آمد ورفت بہت زیادہ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ حادثات بھی اسی شاہراہ پر رونما ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں بیلہ میں ایک مسافر کوچ کھائی میں گرگئی جس کے نتیجے میں 42افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ،ابتدائی رپورٹ کے مطابق مسافر کوچ کی حالت بہتر نہیں تھی جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والاڈرائیور بھی اناڑی تھا یعنی حادثے کی دو وجوہات سامنے آئی ہیں جبکہ کوچ مالکان تنظیم کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیاگیا ہے کہ بارش کے باعث پھسلن کی وجہ سے حادثہ ہوا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں نے پہلے سے ہی الرٹ جاری کررکھا ہے خاص کر خیبرپختونخواہ میں گزشتہ کئی ماہ سے دہشت گردی کے خطرات منڈلارہے ہیں،۔سیاسی قائدین کو کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں بھی ملی ہیں بہرحال دہشت گردی کامعاملہ بڑا سنگین ہے جس سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔
گوادر میں دھرنے پر تشدد کے بعد دفعہ 144نافذ کردیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ ،گرفتاریاں، تشدد، پابندیاں مسئلے کا حل ہیں اور یہ دیرپا ثابت ہوسکتاہے؟ یقینا نہیں کیونکہ بلوچستان میںجب بھی کسی مسئلے کے حل کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انکشافات سامنے آنے لگی ہیں، ق لیگ بالکل ہی تیار نہیں تھی کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کیاجائے جبکہ پی ٹی آئی کے بعض ارکان بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھے مگر عمران خان کی ضد کی بھینٹ دونوں اسمبلیاں چڑھ گئیں، عمران خان اپنے آگے کسی بھی کو دیکھنا نہیں چاہتے تو ان کی رائے کو کیسے اہمیت دینگے۔ بہرحال گزشتہ روز سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے فواد چوہدری کی گرفتاری پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے پہلے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا اگر پہلے یہ کام ہوجاتا تو پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہوتی۔ ایک تو پرویز الہٰی نے عوامی اجتماع کے دوران اس بات کا برملا اظہار کیا ۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ڈیڈلاک کا شکار کیوں ہے، ملک مسائل سے دوچار ہے ، سیاسی عدم استحکام اورمعاشی بحران کے باوجود بھی بات چیت نہیں کی جارہی،پی ٹی آئی تو جب سے حکومت میں آئی ہے اس دن سے وہ خاص کر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔عمران خان جب وزیراعظم تھے تب بھی وہ یہی بات دہراتے تھے کہ چور اور ڈاکوؤں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کا مقصد این آراوٹو دینا ہے۔