ملک میں سیاسی عدم استحکام کے برائے راست اثر معیشت پر پڑرہے ہیں پہلے سے ہی ملکی معیشت لاغر ہوکر رہ گئی ہے موجودہ حالات میں رو بروز ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ روپے کی قدر کم ہوتی جارہی ہے سرمایہ کاروں پر بڑا اثر پڑرہا ہے جس کا اظہار گزشتہ چند دنوں صنعت کار، تجارتی طبقہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدگی سے توجہ دی جائے وگرنہ حالات ایسے رہے تو معاشی حالات مزید خراب ہونگے موجودہ ملکی سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 1 ارب 7 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملکی زرمبادلہ کے ذخائر یکم اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں 1 ارب 7 کروڑ ڈالرکم ہوئے ہیں۔
عمران خان نے کہا تھا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے روز ہی اپوزیشن کو ایسا سرپرائز دینگے جس سے وہ حیران رہ جائینگے.ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے روز وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے اپوزیشن ارکان پربیرونی سازش میں ملوث ہونے کو عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر بجا فرمارہے ہیں کہ ایک بیرونی سازش کے تحت حکومت کو فارغ کیاجارہا ہے۔ جس کے بعد انہوں نے اسمبلی اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا کابینہ تحلیل ہوگئی اور صدر کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے آنے تک کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے رولنگ روک دی۔قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وقفہ سوالات پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئینی حق ہے اور تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت لائی جاتی ہے۔ 7 مارچ کو ہمارے سفیر کو میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے اور ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد لائی جارہی ہے۔
27مارچ اسلام آباد جلسے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک خط دکھایا تھا اور کہاتھا کہ ہمیں بیرونی ممالک سے دھمکی مل رہی ہے بڑی سازش کی جارہی ہے ہماری حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے پیسے دیئے جارہے ہیں جس کے بعد ایک بڑی بحث چل رہی ہے کہ کون سے ممالک سازش کررہے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں اور کیوںکر موجودہ حکومت کو دھمکی دی گئی ہے۔ بہرحال سوالات بہت ہیں مگر اس وقت تک ان پر مفصل بحث نہیں کی جاسکتی جب تک اس خط کے مندرجات کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں اور کون سے ممالک اس میں شامل ہیں ان کے نام سامنے نہیں آتے ۔جبکہ اپوزیشن نے خط کو مکمل رد کرتے ہوئے اسے حکومت کا حربہ قرار دیا ہے اور خط کو پارلیمنٹ میں اِن کیمرہ سیشن میں بحث کے لیے پیش کرنے کی بات کی گئی ہے مگر اس وقت ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے ۔
وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کا استعفیٰ حکومت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے علاوہ کچھ کبھی نہیں ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران وزیراعظم عمران خان یہ بات دہراتے آئے ہیں کہ عثمان بزدار کی کارکردگی سب سے بہترہے اور وہ پنجاب میں بہت اچھا کام کررہے ہیںاور سب عثمان بزدار کے خلاف ہیں بلاوجہ تنقید کرکے ان کے بہترین کارناموں کو بھی بری طرح پیش کررہے ہیں ۔یہ تمام تر باتیں وزیراعظم عمران خان ہر جگہ دہراتے آئے ہیں جبکہ پنجاب میں ان کی اپنی جماعت کے ارکان اور اتحادی عثمان بزدار سے ناخوش اور ناراضگی کا اظہار برملا کرتے آئے ہیں۔ بہرحال اب عثمان بزدار نے استعفیٰ دیدیا ہے مگر ان کی اپنی مرضی و منشا اس میں شامل نہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی ذاتی طورپر اس کی حمایت میں نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ہر وقت عثمان بزدار کا دفاع کیاہے اور واضح طور پر یہ کہا تھا کہ جس نے بھی ہمیں چھوڑنا ہے چھوڑدیں مگر میں بلیک میل نہیں ہونگا اور عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹائینگے مگر سیاست لچک کا نام ہے دوقدم آگے اور چارقدم پیچھے جبکہ جھکنا بھی پڑتا ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما پرویز الہٰی کا کہنا ہے کہ ہانڈی پک چکی ہے، اب تقسیم ہو رہی ہے،سیزن میں نئے کردار آنیوالے ہیں۔انہوں نے آرٹیکل 63 اے پر ریفرنس سے متعلق کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے ووٹ کاسٹ بھی ہوں گے اور گنتی بھی ہوگی۔جرم ہوا نہیں اورعدالت پہلے پہنچ گئے، ووٹ کاسٹ نہیں ہوا ریفرنس دائر ہو گیا۔ان کا کہنا ہے کہ جلسے ریلیوں سے حکومت جاتی تو اب تک سو حکومتیں جا چکی ہوتیں۔ہم نے ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی ہے۔بیرون ملک موجود بیمار کو ابھی طبیعت کے مطابق دوا نہیں مل رہی۔ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں اسلام کو لانے والوں کا کوئی مستقبل نہیں۔مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔مذہب کا نام استعمال کرنیوالوں کو فنگس لگے گا۔
بلوچستان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ساتھیوں کی گرفتاری اور مطالبات کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے پر صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، ڈاکٹرز اور صوبائی حکومت کی اس رسہ کشی نے مریضوں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز گزشتہ پانچ ماہ سے اسپتالوں میں سہولیات کے فقدان سمیت دیگر مطالبات لیے سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ رات ینگ ڈاکٹرز ایک مرتبہ پھر حکومت کی جانب سے تسلیم شدہ مطالبات کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے خلاف ریڈ زون میں دھرنا دینے پہنچے تو پولیس نے درجن سے زائد ڈاکٹروں کو گرفتار کر لیا۔ ینگ ڈاکٹرز نے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف تمام سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کا بائیکاٹ کیا۔ایمرجنسی سروسز کے بائیکاٹ کے باعث اسپتال آنے والے مریضوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو وارڈز سے نکال کر تالے لگا دئیے گئے ہیں جبکہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے احتجاج میں مزید شدت لانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مارچ اور جلسے کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں ہیں، اب پارلیمان کے اندر اور باہر زبردست دنگل سجنے والا ہے یقینا یہ ایک محاذ آرائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ جو جنگ قانونی اور آئینی ہے اب میدان میں لڑی جارہی ہے اس امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا کہ اسلام آباد میں حکومت اوراپویشن کی جانب سے جلسے تصادم کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ کارکنان کے درمیان بڑے تصادم اور کلیش کا سبب بن سکتا ہے۔
ملک میں سیاسی تبدیلی تو ویسے ہی آئے گی عدم اعتماد کی ناکامی اور کامیابی دونوں صورتوں میں سیاسی پارہ ہائی رہے گا کیونکہ اس وقت حکومت اوراپوزیشن دونوں نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ نہیں چھوڑنا ہے ۔وزیراعظم عمران خان اگر عدم اعتماد اور موجودہ سیاسی بحران سے نکل گئے تویہ گمان کیاجارہا ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈران کے تعاقب میں لگ جائینگے جو گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے جاری ہے اس دوران اپوزیشن کے بڑے لیڈران کو جیل بھیجا گیا بعدازاں وہ رہا بھی ہوئے ،ضمانتوں پر بھی ہیں ۔نواز شریف کے متعلق حالیہ کاوے کا بیان بھی سامنے آچکا ہے
بلوچستان میں صحت کا مسئلہ سب سے زیادہ گھمبیر ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے کے بیشتر علاقوں میں صحت کے مراکز غیر فعال ہیں جس کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہری علاج کے لیے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں جنہیں بڑی اذیتیں جھیلنے پڑتی ہیں اس میں بزرگ، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جب وہ کوئٹہ آتے ہیں تو انہیں بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن میں ڈاکٹروںکی ہڑتال، اوپی ڈیز کی بندش ،ادویات کا نہ ہونااور مشینری کی خرابی یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے انہیں شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔