بطور سیاسی کارکن کے میرے میر حاصل خان بزنجو صاحب سے زندگی کے بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مجھ سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس کے عہد میں اْسکے کاروان کا ساتھی رہا ہوں۔ وہ ایک جرات مند مدبر سیاسی لیڈر تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم میر صاحب کو آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک بہادر جمہوری لیڈر کے طورپر جانتے ہیں وہ بدترین آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے لیے قید وبند کی صْعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب مشرف دور میں وہ جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوکر آمریت کو للکارتے تھے۔
Posts By: گہرام اسلم بلوچ
انٹر نیٹ کی عدم دستیابی اور آن لائن کلاسز کا درد سر
نول کوویڈ 19کے پیش نظر ملک بھر میں معمولات زندگی، کاروبار سمیت درس و تدریس کا عمل بھی معطل ہے۔ ملک میں جاری کئی مکمل اور جزوی لاک ڈاؤن کے پیش نظر دیگر شعبوں کی طرح شعبہ تعلیم بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ طلبا و طالبات کے تعلیمی سال کے ضیاع کو مد نظر رکھ کر ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) نے اپنے تمام ماتحت جامعات کو آن لائن کلاسز شروع کرانے کا حکم صادر کیا۔ اسی طرح ایچ سی کا یہ حکم اپنے ماتحت بلوچستان کی یونیورسیٹز پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔ جب سے تمام جامعات نے ایچ ای سی کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی شروعات کی تو ملک بھرمیں طلباء و طالبات کے تحفظات سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان کے طلبا و طالبات نے متعلقہ ادارے کی اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان آبادی کے
کتب بینی اور اسکی اہمیت
آزادی ِ صحافت، سب سے بڑی جنگ، احفاظ الرحمن/ اقبال خورشید: سال پہ سال گزرتے رہے ایک تاریخی جنگ، پاکستان کی صحافیوں کی سب بڑی جنگ، کی یادیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ تمہیں لکھنا ہے، دوستوں کا حلقہ اصرار کرتا رہا۔ ارادہ ٹوٹتا رہا۔ وقت ٹلتا رہا۔ میں خود برنا صاحب سے درخواست کرتا رہا۔ وہ بھی وعدہ کرتے رہے، وقت ٹلتا رہا۔ اب وہ نہیں رہے جو اس تحریک کے معمار تھے۔
کتب بینی اور اسکی اہمیت
آج کے اس جدید دور (فورتھ جنریشن) میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر چیز آسانی سے دستیاب ہوتا مگر جن سرکلوں اور روایتوں نے ہماری ذہنی و فکری تربیت کر کے مہذب بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اس سے ہم تیزی کیساتھ دور ہوتے جارہے ہیں،۔۔۔ کْتب بینی (Reading Book)کلچر، اگر آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہم surviveکررہے ہیں تو یہ انہی اسٹڈی سرکلز، کتب بینی، مکالمہ اور بحث و مباحثے کی روایتوں اور فکری تربیت کی مرہون منت ہے، مکالمہ، بحث مباحثہ تربیتی نشست اور تنقید برائے تعمیر ہمارے معاشرے کی خوبصورتی تھی۔۔
تنگ ہے یہ دنیا سچ پہ قائم رہنے والوں کے لیے
لاکھوں انسانوں کے دلوں میں بسنے والے، لاکھوں بے کس و لاچار وں کی آواز بن کر اپنوں سے دور، بے وطنی کی کرب میں مبتلا اور انکی وطن اور قوم سے محبت کی شدت کو وہی بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں جو وہ موجودہ دور میں انکے شریک سفر تھے۔ ہم بس وہی لکھتے ہیں جو اس وقت سماج میں ایک قلم کار کی ذمہ داری ہے اور ان کا قلم اْن سے بھی یہی تقاضہ کرتا ہے بقول فراز “کہ
بنیادی شہری حقوق اور آئین پاکستان
ملک میں اظہار آزادی رائے کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے, آج تک ہم نہیں کبھی بھی ایسے موضوعات پہ لکھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ملکی آئین و قانون کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت کے خطرے کا سبب بنے۔ ہم اْس دائرے کار کے اندر رہتے ہوئے جو کہ آئین پاکستان کے 1973 کے آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق جو کہ آئین کے دفعات 8 تا 28 تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے ہم نے ہمیشہ اپنے مسائل سے دوسروں کو آگاہ کرنے کے لیے اْن تمام چیزوں کا پابندی کیساتھ خیال رکھا جسکی آئین پاکستان ہرگز اجازت نہیں دیتی۔
بلوچی شعبہ ماں کراچی ءِ مزن شاہ دربرجاہ ءَ
پہ بلوچ، بلوچی ءُُ بلوچستان ءِ دود ءُُ ربیدگءُُ زبان ءَ ہرکس وتی وس ءُُ واک ءَ وتی وتی پڈا جہد کنگان انت۔ راجانی مستریں پجار آئی زبان انت۔ چونکہ اے ملک ءِ تہا بلوچ ہم مزنیں کساسے ءَ آباد انت بلئے بژن ءِ گپ اش انت کہ اے ملک ءِ تہا بلوچ ءَ را داں روچے مرچی ہچبر سرکاری سرپرستی گون نہ بوتگ بلئے ابید سرکاری سرپرستی ءَ بلوچ ہر پسگ ءَ وتی متابک ءَ بلوچ ءِ ہذمت کنگے باز جہد کتگ ءُُ کنگان انت۔
بلوچ جہد ء ِسد سال
چونہا ادے حاکم سروکاں َ دیر انت کہ ہر دور ئَ بزگیں بلوچ لگتمال کْتگ بلے وہد وہدئِ سرا وتی وس ئُُ واک ئَ بزگیں بلوچ ئَ اے زوراکیانی حلاپ ء َ آواز چست کنگئِ جہد کْتگ۔ بلے چے کنئے کہ اے وہد ئَ گوں طاقتور ئُُ زوراکاں گوں مڑگ ہم ارزانیں کارے نہ انت ،آ کہ وتی حاکمی ئْ ُ تمردی ئَ پیشدارایت آ ہچبر پْشت ء َ نہ کنزایت چیا کہ آئی ئِ حیال دائم ہمیش بیت کہ منی پد کنزگ منی بزدلی گْشگ بیت ء ُ دگنیا من ئَ شگانی کنت ۔
بلوچستان یونیورسٹی اورطلبا تحریک کا آغاز
بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اسکینڈل کے بعد طلبا ء تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم ردعمل جنوری 1953 کی ملک گیر طلبا ء تحریک کے دور کی منظر کشی کر رہاہے فرق یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی تعلیمی ادارے میں ا س طرح کی حرکت کرنے کا کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔
بلوچستان میں علمی ادبی تحریکوں کی روایت
کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ ایک ایسا بھی دور تھا جب بلوچستان سیاسی و ترقی پسند ادبی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جناح روڈ پر جگہ جگہ کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔اب یہ دکانیں برانڈڈ جوتوں یا کھدر کلاتھ کے اعلیٰ مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں، مگر کبھی کبھی ان بچھڑے ہوئے ترقی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں تو پھر سے میرے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔