اسی ایک ہی سفر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ اس چھوٹی سی فانی زندگی میں احساس کے بغیر جینا اور پھر یوں مرنا جیسے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ایک انسان کو زیب نہیں دیتا۔
Posts By: جعفر قمبرانی
*اپنا آپ تجزیہ کریں*
کاروباری حضرات کو اکثر یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کا تجزیہ کریں جسے انہی کی زبان میں ( SWOT Analysis) یعنی ایس، ڈبلیو، او اور ٹی (سوواٹ) تجزیہ کہتے ہیں۔
نئے لوگ، پرانے نظام
کیا ایسا نہیں کہ ہم سب کا کوئی نا کوئی ایسا سرکاری کام ضرور ہے جس کے مکمل ہونے کا آپ کو پچھلے چند ماہ سے انتظار ہے؟ یا آپ نے اکثر میٹرک سے ماسٹرز تک کے طلباء وطالبات کو نوکری کیلئے درخواستیں جمع کرتے اور انہیں نوکریوں کی ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے چھ آٹھ یا بارہ مہینہ انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
رقمِ مرض کا استعمال
جب دیکھو کچھ نا کچھ آ ہی جاتی ہے، کبھی قرض سے تو کبھی مرض سے، ادھار، سودے بازی یا کچھ اور کہی اور سے آنا بھی کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ مگر آئے ہوئے پیسے کو کیسے اور کہا استعمال کرنا ہے یہ ہر نتھو خیروں کی بس کی بات نہیں، ناہی ایسے پیسے سے دولت، شہرت یا عزت ملتی ہے۔
عصر حاضر کا بے بس انسان*
بڑے بوڑھے کہتے ہیں بھلے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے، ہاتھ اور گلے مل کر ایک دوسرے کیلیے بیٹھنے کی جگہ بناتے تھے۔چائے کھانا وغیرہ سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی تھی۔ محافل تھیں خوش گپیاں تھیں۔کسی محفل میں نووارد کیلیے جگہ بنانا نوجوانوں کی مشرقی اقدار میں سے ایک نمایاں قدر ہوا کرتا تھا۔
بلوچستان، بہترین سیاحتی مرکز
بلوچستان کا نام سنتے ہی قدرتی ذخائر، بے شمار پہاڑی سلسلے، چشمہ و کاریزات اور دیگر انعاماتِ خداوندی کا تصور ذہن میں گونجنے لگتی ہے کہ یہ سرزمین خدا کی خاص خصوصی نظر کرم اور مہربانیوں کا گہوارہ ہے۔ جہاں یہ سرزمین زیر زمین ہزاروں ذخائرِ معدنیات و قیمتی اشیاء سے مالامال ہے تو دوسری طرف محل و وقوع کے اعتبار سے تین ملکوں سے ملنے والی ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں ملک کے سمندری حدود اور آبی بندرگاہیں وقوع پذیر ہے۔
بھیگی سڑک
شاہراہ جتنی سنسان اور سنسنی خیز اتنی ہی دلکش اور دل کو چھو جانے والی ہے، جسکی بنیاد 1974 میں سردار عطاء اللہ خان مینگل (بطور وزیراعلٰی) کے دور حکومت میں ایران، ترکی اور پاکستان میں ایک معاہدے کے تحت رکھی گئی۔ وہی شاید اسکی پہلی اور آخری تعمیر تھی جس کے بعد اس پر حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کی نظرِ رحمت نہیں بلکہ کربلا کا سایہ ہے جو صرف سر مانگتا اور خون ہی پیتا جارہا ہے۔ ہاں وہی سرزمینِ بلوچستان سے گزرنے والی 813 کلو میٹر کا سڑک جو کہ کراچی شیرشاہ سے شروع ہوکر حب، بیلہ، خضدار، قلات اور کوئٹہ سے ہوتے ہوئے چمن اور افغانستان بارڈر تک جاپہنچتی ہے! جسکی سفر میں تھکاوٹ، بوریت اور اکتاہٹ نہیں بلکہ خوبصورت یادیں، بلند پہاڑیاں اور بلوچستان کا وسیع و عریض سر زمین ہے جو بظاہر کچھ نہیں مگر اپنے اندر صدیوں کے راز چھپا ئے بیٹھا ہے۔
جھلستا سورج اور پگھلتا بلوچستان
پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ قوم کو زوال کی طرف دھکیلنے میں کئی اقوام بر سرِ پیکار ہیں کہ بلوچ قوم کو دو مختلف اقوام میں بانٹ کر بلوچستان کو آسانی سے تھوڑا جاسکے۔ یہ پالیسی کہیں اور نہیں بلکہ انیسویں صدیں کے اوائل سے شروع ہوچکا جس کو برطانوی حکومت کی پالیسی rule and devideماننے سے کوئی انکاری نہیں۔ یاد رہے اگست 1600 میں ویلیم ہاکنز ( Hawkins William) کا برصغیر میں ایک مہاجر کی طرح داخل ہونے سے لیکر مغل شہنشاہ جہانگیر تک رسائی، انکی عزت افزائی اور وزیر و مشیر بننے کے بعد انگریزوں کا پورے برصغیر پر قبضہ جمانا کوئی انہونی بات نہیں رہی تھی۔