پھٹے ہوئے ہونٹ ، سوجھا ہوا منہ، نیل پڑے رخسار، بکھرے بال ، ہاتھوں اور گردن پہ کھروچ کے نشانات واضح طور پر یہ پیغام دے رہے تھے کہ اْس پر بہت کچھ گزر اہے۔ اْس کو اذیتیں دی گئی ہیں، پیروں پہ بھی نیل کے نشان تھے۔ آواز کی لڑکھڑاہت روح کی شکستگی بھی بیان کررہی تھی۔ سکینہ ( فرضی نام ) 2 سال قبل اْس کی شادی وٹے سٹے کے تحت ہوئی تھی، اْس کی ایک 18 ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ اْس نے بتایا کہ ” شادی کے شروع کے دن تو میرا میاں میرا بہت خیال رکھتا تھا ، پھر بعد میں میری بھابھی جو وٹے سٹے میں گئی تھی ، نے شکایتیں شروع کئے کہ اْس کے ساتھ سسرال میں برا سلوک کیا جاتا ہے ، پھر یہاں میرا جینا مشکل ہوگیا،
Posts By: رخشندہ تاج بلوچ
تھیلیسیمیا کی روک تھام کیسے ممکن ہو؟
اولاد ایک نعمت ہے ، جس کے پیدا ہونے کے بعد ماں باپ کی زندگی بدل جاتی ہے ، احساسات تبدیل ہوجاتے ہیں ، انسان میں احساسِ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہ زندگی کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے اور سارا محور ہی ایک ننھی سی جان بن جاتی ہے۔ لیکن جو وجود انسان کو زندگی کا احساس دلاکر خود ہر روز درد اور تکلیف میں مبتلا ہو تو سوچو اْن ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی۔ جن کے سامنے اْن کے جگر گوشے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوں اور جن کی زندگی دوسروں کی ثواب دید پر ہو ، جو دوسروں کے خون کے عطیات پرزندہ ہوں۔ بہت مشکل ہوتی ہیں اْن خاندانوں کے لئے کہ جو اپنے بچوں کو زندگی دینے کے لئے خون کا عطیہ مانگتے ہیں۔ جی میں اْن بچوں کی بات کررہی ہوں جو تھیلیسیمیا جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ جن کی زندگیاں عام بچوں سے ہٹ کر ہوتی ہیں جن کی جسمانی ساخت عام بچوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ جن کو چھوٹی عمر میں بہت سے تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔
شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔
5ستمبر کا ایک دن جب کسی دوست کے گھر برتھ ڈے پارٹی میں ہنستے ہنستے موبائل میں موجود وٹس اپ پر نظر پڑی تو آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ سکتہ سا طاری ہوگیا۔ وجود جکڑ سا گیا۔ خوشی کافور ہوگئی۔ اور بے اختیار منہ سے نکا” شائینہ قتل ہوگئی” محفل میں خاموشی چھاگئی۔ وہاں بیٹھے ہوئے شاہد کوئی شائینہ کو نہیں جانتا تھا۔ جو چند افسوس کے بعد پھر سے اپنی شغل میں مصروف ہوگئے۔
مرجاؤ کہ مرگیا ضمیر اب۔۔۔
کچھ واقعات ناصرف انسان کو جھنجوڑتے ہیں بلکیں دماغ تا دیر اْن کے زیر اثر رہ جاتا ہے۔ 20 جولائی 2021 کی ایک خاموش شام جہاں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کی ایک خوبصورت بنگلے میں ایک 27 سالہ جوان نازک اندام لڑکی نور مقدم کی بنا سرکی لاش پڑی تھی جن کی گردن… Read more »
ضمیر بردار لوگ
اِس دنیا میں کوئی بھی چیز مفت او ر آسانی سے نہیں ملتی اِس کے لئے کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنی پڑتی ہے، حتیٰ کہ ایک بھکاری بھی مفت میں بھیک نہیں مانگتا اِس کے لئے وہ اپنا عزت نفس اور خودی کو مارڈالتاہے۔ ہمارے معاشر ے میں نوجوان اپنے روشن مستقبل کے لئے اپنا وقت اور سرمایہ لگاتے ہیں۔ ہر کوئی اِسی تگ و دو میں ہے کہ کسی بھی طرح کامیابی حاصل ہو، کوئی لمبا راستہ اختیار کرتا ہے اور کچھ نازک اور منچلے مزاج والے شارٹ کٹ کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اپنے ضمیر کومار دیتے ہیں۔
انصاف کو راستہ دیں!
دور ِ حاضر میں مہنگائی کسی اژدہا کی طرح اپنا پھن پلائے غریب عوام کی نصیبوں میں کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے، جہاں وہ سانسیں بھی گن گن کر لیتا ہے کہ کہیں اِن کا بھی حساب نہ دینا پڑے، وہ قدم بھی پھونک پھونک کر اُٹھاتا ہے کہ کوئی موچ نہ آجائے اور اِس فاقے کے زمانے میں جہاں گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے، اسپتال وغیرہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اورمہینے کا بجٹ ڈسٹرب نہ ہو، لیکن اِیسے میں بھی غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھا رہے اور نوجوان پارٹ ٹائم نوکریاں کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کررہے ہیں، اِس اُمید پر کہ ایک نہ ایک دن ان کو سرکاری نوکری ملے گی اور باقی کے دن خوشحال گزرینگے۔
میرے عہد کے ناشناس پگدار
کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں جس سے وہ ہمت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناؤ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسکراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُ س بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔