کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے دلچسپ صورتحال پیدا کردی ہے، ملک میں جاری سیاسی بحران نے کراچی کے مئیر کی لڑائی پرملک بھر کی نظریں مرکوز کردی ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے سیاسی احیاء کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ مئیر جماعت اسلامی کا ہو۔ جماعت اسلامی اس سے قبل دو مرتبہ کراچی کا مئیر بنا چکی ہے عبدالستار افغانی کے بعد 2001میں دوسری مرتبہ نعمت اللہ خان مئیر بنے اور اتفاق سے اس بار بھی ایم کیوایم بائیکاٹ پر تھی اور جماعت اسلامی نے ایم کیوایم کے علاقوں سے میدان مار لیا تھاتاہم اس مرتبہ ایم کیو ایم کے وہ علاقے جہاں سے تحریک انصاف جیتتی تھی انہیں وہ کامیابی نہیں ملی، اس مرتبہ پیپلزپارٹی نے ذہانت سے انتخابی کھیل کھیلتے ہوئے کراچی کے سات اضلاع میں سے چار اضلاع کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا۔ اسی حکمت عملی اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے انہیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے وفاق سے حکومت چھوڑنے کی دھمکی پر آخری وقت حلقہ بند یوں کے نوٹیفیکشن کے خاتمے کا آرڈینس جاری کردیا گیالیکن اس میں کافی دیر ہوچکی تھی اور انتخابات کے ملتوی کرنے میں بھی پیپلزپارٹی حکومت نے فیصلہ سازی کا اختیار الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے ذ مے رہنے دیا جنہوں نے نہ تو وزارت داخلہ کی بات مانی، نہ ہی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی اور انتخابات کرادئیے گئے جبکہ یہی صورتحال اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں بھی تھی جہاں انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد حلقہ بندیاں کی گئیں جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے انتخابات کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود انتخابات نہیں ہوئے اور معاملہ تاحال عدالت میں ہے۔
Posts By: سراج احمد
تختِ لاہور کی لڑائی اور اس کے قومی سیاست پر اثرات
کنفیوژن کے شکار مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں ایک اور موقع گنوا دیا جس سے تحریک انصاف کے کمزور ہوتے بیانیے کونئی طاقت مل گئی۔پرویز الٰہی کی سیاست نے جہاں اعتماد کا ووٹ لیکر مسلم لیگ(ن) کے لاؤ لشکر کو بدترین شکست دے دی ہے تو وہیں مسلم لیگ(ن) کی توقع کے برعکس پنجاب اسمبلی… Read more »
آرمی چیف کی تعیناتی پر سیاست
ملک میں اس وقت سیاسی اور عوامی ہیجان کا مرکز فوجی تعیناتی نظر آرہی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ فوجی سربراہ کا اپنا کردار ہوتا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جھکائو اکثر انہیں تعینات کرنے والی سیاسی حکومت کے تابع نہیں ہوتا لیکن اس وقت کا سب سے بڑا موضوع نئی آرمی چیف کی تعیناتی ہے ،جسے بحث بنا کر سیاسی تنازعات ابھارے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے نواز شریف کا یہ موقف سامنے آرہا ہے بھیجی گئی سمری میں میرٹ میں جو سب سے سینئر جنرل ہو ،اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے لیکن تاحال نواز شریف کے اس خیال کوتقویت ملتی نظر نہیںآرہی جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکمران جماعت باالخصوص مسلم لیگ (ن)میں شاید اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سمری میں تاخیر بھی اسی لیے کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت نے ابھی تک اپنا واضح ذہن نہیں بنایا۔ اندرون خانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سینئر جنرل کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جارہا ہے، جس کے بعد نئی سینارٹی کے مطابق سمری حکومت کو ارسال کی جائے گی۔
انتخابات یا مارشل لا۔۔؟
پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس نے ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے جوایک جانب جہاں عام آدمی کے ذہن کو متاثر کررہا ہے، وہیں اس نے ملک کے عام آدمی کے مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ وطن عزیز کے لوگ موجودہ سوشل میڈیا کے دورمیں سیاسی شعور کے بجائے سیاسی عقیدت کاشکار ہوچکے ہیں۔یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو بری لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عقیدت سیاسی شعور کی موت ہے۔ بیانیے کی جنگ نے دلیل اور مثبت بحث کو ختم کردیا ہے۔ سیاسی بیانیہ بنانے میں گوبلز کی تھیوری کا کامیاب استعمال ہورہا ہے،یعنی جھوٹ اتنا بولو کہ سچ کا گماں ہونے لگے۔اس کا کامیابی سے استعمال ہورہاہے ،کسی بھی چیز کو بغیر سوچے سمجھے کٹ پیسٹ کرکے اسے سچ ثابت کرنا اور اس پر ڈٹ جانا ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے، ہم اب بحث قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مخالف پر فتح کی نیت سے کرتے ہیں۔