سوشل میڈیا آفت یادر یافت

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

’’آج کل کے بچوں کی نانی اماں فیس بک ہے۔واٹس ایپ ان کا دوست اور انسٹاگرام ہمدرد ہے‘‘۔ دبئی میں میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک پاکستا نی ساتھی شکیل صاحب کی یہ بات مجھے آج بھی یا دہے۔ پہلے کہتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دینا ناممکن ہے مگر اب کہتے ہیں کہ گوگل میں دنیا کو بند کر دینا ممکن ہے۔ یہ اب حضرتِ گوگل کی کرامات ہیں یا فیس بک کا جادوجو سر چڑھ کر تو کیا چھت پر چڑھ کر بھی بولتا ہے۔

روز مرہ زندگی میں پلاننگ کی اہمیت

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

آج کے کالم کا عنوان تحریر کرتے ہوئے میر ے ذہن میں آیا کہ قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آج میں فیملی پلاننگ کی بات کرنے لگا ہوں، تو جناب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں آج انتہائی اہم موضوع پر بات کرنے لگا ہوں جو آج ہماری زندگی سے بالکل مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ہم سب کچھ سوچتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ 

قانو ن کی لاقانونیت

Posted by & filed under اہم خبریں.

’’قانون کی لاقانونیت‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو سماعتوں کو نامانوس لگے گی ۔ اس مملکت خداداد میں ہماری سماعتیں ہمیشہ سے کچھ ایسی اصطلاحات سے مانوس رہی ہیں کہ جن کی شیرینی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مثلاً ’’قانون کی سربلندی‘‘اور ’’قانون کی حکمرانی‘‘ جیسے خوشنما الفاظ حکمرانوں سے لے کر منصفوں اور وکلاء کے لبوں سے پھسلتے نظر آتے ہیں۔ 

کتاب دوست نواب

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

لائبریری معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے اور کتاب ا س کی عصمت ہوتی ہے۔ ازل سے بدی اور شر کی قوتیں معاشرے کو ان دو نعمتوں سے محروم کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ یہ الفاظ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور اور محقق ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ہیں۔ 

روشن خیالی سے ملائیت تک

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے ، بلکہ اس فکری دشمن کی شناخت کرنا چاہیے جس سے اصل میں ہمارا سابقہ ہے اور وہ دشمن وہی ہے جو روشن خیالی کی جگہ فکری تنگ نظری اور رواداری کی بجائے مختلف عصبیتوں کی پرورش کرتا ہے اور استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے(سید سبط حسن)۔

صدیق بلوچ: اک عہد جو تمام ہوا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

یہ تو قطعیت سے یاد نہیں کہ وہ کونسا دن یا تاریخ تھی لیکن یہ دس برس پہلے کا ہی کوئی دن تھا جب کراچی پریس کلب میں اس بزرگ شخص سے ملاقات ہوئی جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہمیشہ موجود رہتی۔اپنے دوست عارف بلوچ کے ساتھ اس شخص کی پریس کلب میں آمد پرمیں بھی ان بزرگ سے بڑے احترام سے ملا جسے سب “ماما،ماما”کہہ کر پکار رہے تھے۔