قارئین کرام میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کے ان اوجھل پہلوئوں پر بات کر وں کہ جنہیں شاذ و نادر پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ جی ہاں آج کے کالم کے عنوان کو دیکھتے ہوئے تھوڑی سی کوشش کرونگا کہ اس عنوان کی مطابقت بلوچستان کے سبی میلے سے کیا بن سکتی ہے۔ سبی میلہ ایک میلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، قبائلی، تہذیبی اور ثقافتی تفریقات کو ختم کرکے باہمی یگانگت، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی میں تبدیل کرنے کی ایک اہم ثقافت بن چکا ہے۔ سبی میلے کو اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ میلہ 14 ویں صدی سے بلوچستان کی یکجہتی کی علامت سمجھاجاتا ہے جب میر چاکر خان نے 1496 میں قبائلی تنازعات کو ختم کرنے کے لئے ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا- میر چاکر خان رند جنہیں بلوچ قوم کا ہیرو کہا جاتا ہے 1468 کے اوائل میں کیچ میں پیدا ہوئے جنہوں نے برصغیر کو فتح کرنے کے لئے مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ میر چاکر خان رند کی زندگی اپنی بلوچ قوم کے لئے جنگوں سے بھری پڑی ہے جہاں انہوں نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ وہ رند قبیلے کے سردار تھے اور انہوں نے لاشاریوں کے ساتھ 35 سال کی جنگ میں انہیں شکست سے دوچار کیا تو انہوں نے شیر شاہ سوری کے خلاف مزاحمت کی جن میں انہیں شکست ہوئی اور شکست کے بعد میر چاکر خان رند نے پنجاب میں رہائش اختیار کی جہاں وہ 1565 میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ قبائلی تنازعات کے حل کے لیے شروع ہونے والا سبی اجتماع آہستہ آہستہ ایک تہوار کی شکل اختیار کرلی جس میں شامل ہونے کے لئے طول و عرض سے تقریبا ً5 لاکھ سیاح شریک ہوتے ہیں۔ اس میلے کو مزید تقویت تب ملی جب برٹش راج نے سبی پر قبضہ کیا اور تب کی وہ کاوشیں کہ جس سے سبی کو بلوچستان کے لئے سرمائی مرکز بنانا تھا کو برٹش راج نے اس قدیم قبائلی جرگے کو دربار کے نام سے منسوب کردیا جسکے لئے اس وقت جرگہ حال بھی تعمیر کیا گیا جس کو دیکھنے کے لئے آج تک سیاح آتے ہیں۔ تب سے لیکر پاکستان کی آزادی تک یعنی سن 1947 تک انگریزوں نے آخری مرتبہ اس جشن سبی کو منایا۔ آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح (رح) نے صحت کی خرابی کے باوجود فروری 1948 میں پہلی مرتبہ اس جشن کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اس میلے نے ملک گیر شکل اختیارکی بلکہ قائد نے یہ بھی باور کرایا کہ بلوچستان سے وہ خلوص کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔
Posts By: طارق خان ترین
*فکر انگیز بلوچستان*
بلوچستان قطع نظر اس بات پر کہ یہاں معاشرتی، معاشی، مذہبی اور ثقافتی زندگی، حالات و واقعات نے اجیرن بنا دی ہے مگر ایسے کون سے عوامل ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنا کر بلوچستان جیسے اپنے صوبے کو اوپر لاسکتے۔ وہ تمام تر حقائق کہ جن کا تعلق براہ راست صوبے کے نوجوان طبقے سے ہے جن میں تعلیم، صحت، کھیل، روزگار اور میرٹ وغیرہ شامل ہے، پر اپنی توجہ اگر مبذول کرے تو یہ سالوں کی نہیں بلکہ مہینوں کی بات ہوگی کہ جب بلوچستان چڑھتے ہوئے سورج کی طرح ترقی کی راہ پر خود بھی گامزن ہوگا اور ملک کو بھی گامزن کرائے گا۔