|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2023

قارئین کرام میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کے ان اوجھل پہلوئوں پر بات کر وں کہ جنہیں شاذ و نادر پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ جی ہاں آج کے کالم کے عنوان کو دیکھتے ہوئے تھوڑی سی کوشش کرونگا کہ اس عنوان کی مطابقت بلوچستان کے سبی میلے سے کیا بن سکتی ہے۔ سبی میلہ ایک میلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، قبائلی، تہذیبی اور ثقافتی تفریقات کو ختم کرکے باہمی یگانگت، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی میں تبدیل کرنے کی ایک اہم ثقافت بن چکا ہے۔ سبی میلے کو اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ میلہ 14 ویں صدی سے بلوچستان کی یکجہتی کی علامت سمجھاجاتا ہے جب میر چاکر خان نے 1496 میں قبائلی تنازعات کو ختم کرنے کے لئے ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا- میر چاکر خان رند جنہیں بلوچ قوم کا ہیرو کہا جاتا ہے 1468 کے اوائل میں کیچ میں پیدا ہوئے جنہوں نے برصغیر کو فتح کرنے کے لئے مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ میر چاکر خان رند کی زندگی اپنی بلوچ قوم کے لئے جنگوں سے بھری پڑی ہے جہاں انہوں نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ وہ رند قبیلے کے سردار تھے اور انہوں نے لاشاریوں کے ساتھ 35 سال کی جنگ میں انہیں شکست سے دوچار کیا تو انہوں نے شیر شاہ سوری کے خلاف مزاحمت کی جن میں انہیں شکست ہوئی اور شکست کے بعد میر چاکر خان رند نے پنجاب میں رہائش اختیار کی جہاں وہ 1565 میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ قبائلی تنازعات کے حل کے لیے شروع ہونے والا سبی اجتماع آہستہ آہستہ ایک تہوار کی شکل اختیار کرلی جس میں شامل ہونے کے لئے طول و عرض سے تقریبا ً5 لاکھ سیاح شریک ہوتے ہیں۔ اس میلے کو مزید تقویت تب ملی جب برٹش راج نے سبی پر قبضہ کیا اور تب کی وہ کاوشیں کہ جس سے سبی کو بلوچستان کے لئے سرمائی مرکز بنانا تھا کو برٹش راج نے اس قدیم قبائلی جرگے کو دربار کے نام سے منسوب کردیا جسکے لئے اس وقت جرگہ حال بھی تعمیر کیا گیا جس کو دیکھنے کے لئے آج تک سیاح آتے ہیں۔ تب سے لیکر پاکستان کی آزادی تک یعنی سن 1947 تک انگریزوں نے آخری مرتبہ اس جشن سبی کو منایا۔ آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح (رح) نے صحت کی خرابی کے باوجود فروری 1948 میں پہلی مرتبہ اس جشن کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اس میلے نے ملک گیر شکل اختیارکی بلکہ قائد نے یہ بھی باور کرایا کہ بلوچستان سے وہ خلوص کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔
سبی میلہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک خداداد پاکستان کے بہتر امیج کو اجاگر کرنے کے لئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ معاشی اعتبار سے جہاں یہ میلہ بلوچستان کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہورہا ہے جس کو دیکھنے کے لئے لاکھوں سیاح امڈ آتے ہیں اسی طرح ضلع سبی کے CPEC میں شامل ہونے سے ملک کے لئے فواہد انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سبی میلے میں صنعتی اور زراعتی نمائشوں کے ساتھ ساتھ کاشتکار، باغبان،دستکار اور صنعت کار بھی اپنے اپنے سٹالز لگاتے ہیں جن سے وہاں کے باسی خطیر رقم کمالیتے ہیں۔ سبی میلے کو اگر مزید گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو وہاں مویشیوں کی ایک بڑی منڈی بھی لگائی جاتی ہے جہاں بڑے پیمانے پر انکی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ سبی میں رہنے والے لوگوں کی اکثر کمائی اس میلے سے منسلک ہے جو سال بھر تزئین و آرائش کے انتظار کے بعد اس میلے میں اپنے مال مویشی لاکر اور اسے بیچ کر اپنی کفالت کرتے ہیں۔ بھاگ ناڑی نسل کے بیل اور گائے پورے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں بھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے جو کہ سبی میلے کو چار چاند لگاتے ہیں اور خریدار ان پر خطیر رقم خرچ کر کے خریدتے ہیں جسکی وجہ سے ضلع کے ساتھ ساتھ صوبے کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس میلے کے توسط سے جہاں کروڑوں روپے کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہاں مویشیوں کی نمائش اور مقابلے بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ ہوتے ہیں اور جیتنے والے کو اچھی رقم بطور معاوضہ ادا کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی جیتنے والے جانور کو بھی اچھی رقم سے خریدا جاتا ہے۔ بلوچستان میں مہمان نوازی کو ثقافت اور تہذیب کا درجہ دیا جاتا ہے، یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے جو کہ لاکھوں سیاحوں کا اس میلے میں شرکت سے نہ صرف ثابت ہے بلکہ یہاں کی مہمان نوازی اس سے بھی زیادہ سیاحوں کو مدعو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جن کا مشاہدہ آنے والے وقتوں میں بخوبی کیا جائیگا۔ بلوچستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بلوچی اوربراہوئی ،پشتو، سرائیکی اور پنجابی زبان شامل ہے۔ مختلف زبانوں کے اقوام کو یکجہت رکھنے کے لئے سبی میلے کا اہم کردار ہے جن سے قومی ہم آہنگی کا موثر تاثر ابھرتا ہے۔ اس میلے کے لئے پاکستان بالخصوص بلوچستان کے لوگوں کو بے تابی سے انتظار رہتا ہے تاکہ مختلف اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع میسر آسکے۔
حکومت بلوچستان کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اس میلے کے لئے اہم اقدامات اٹھانے چاہییں جس سے اس میلے کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔ اس میلے میں نہ صرف بلوچستان کی ثقافت بلکہ دیگر صوبوں کی ثقافتوں کو بھی اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے دونوں حکومتیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو اس میلے میں صلاحیت موجود ہے کہ یہاں پر بین الاقوامی کاروبار کے ساتھ ساتھ انکے تہذیب و ثقافت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ جس سے ملکی معیشت بہتر کی جاسکتی ہے۔ اس میلے کے فروغ سے بلوچستان جیسے حساس صوبے سے احساس محرومی، غربت کا خاتمہ، بے روزگاری جیسے موذی معاشرتی امراض سے چھٹکارے کے ساتھ بلوچستان میں سماجی، معاشرتی اور چڑھتے بلوچستان کا خواب ممکن ہوسکتا ہے۔