|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2024

کوئٹہ:  نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے سابق وزیراعلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے بیان کو مضحکہ خیز اور سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دیا کہ گوادر کو باڑ لگانے کا سہرا قدوس حکومت اور حالیہ حکومت کے سر جاتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے

اسلم رئیسانی گوادر میں باڑ لگانے کاذمہ دار نیشنل پارٹی کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے موصوف کا بیان ہے کہ مری معاہدے کی وجہ سے گوادر میں باڑ لگائی جارہی ہے

گوادر میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کو آباد کرنے کے بجائے فوج کے حوالے کی،

پہلی بات تو یہ ہے کہ نواب صاحب اپنے دور حکومت میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کو وقت دیکر عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے زیادہ وقت اسلام آباد کے پرفضا مقام پر گزارتے رہے

فائلیں خصوصی جہاز میں اسلام آباد جاتے اور وہاں سے نکل کر گوادر کے پی سی ہوٹل میں ساحل سمندر پر قیام پزیر ہوتے، ساحل سمندر پر تین کمروں پہ مشتمل ریسٹ ہاؤس کو وزیر اعلی سیکریٹریٹ اور سرمائی دارالحکومت قرار دینا دراصل ساحل پر پی سی ہوٹل میں قیام کا ایک بہانہ تھالیکن نیشنل پارٹی نے گوادر کو سنجیدہ لیا

گوادر میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کے مستقل قیام کے لیئے مستقل اسامیاں منظور کیں اور مشرف دور حکومت میں لاکھوں ایکڑ الاٹ کردہ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کی اور منظور کردہ اسامیوں پر تعنیاتیوں کے مراحل میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزارت اعلی کا ڈھائی سالہ دور ختم ہوا بعد ازاں اس سیکریٹریٹ کو فوج کے حوالے کیا گیا جس کا ذکر نواب اسلم خان رئیسانی نے کی ہے،

جہاں تک گوادر کو باڑ لگانے سے بچانے میں اس سیکریٹریٹ کا کردار کا تعلق ہے نواب صاحب کے دور حکومت میں تو سریاب روڈ سے گوادر تک باڑ لگانے سے برا حال تھا ہر دو سو میٹر پر ایک سپاہی بزگوں کو ان کے جوان بیٹوں بیٹیوں کے سامنے بے عزت کرتا کوئٹہ سے مستونگ تک کئی شریف النفس شہری اغواہ ہوئے قومی شاہراہیں رہزنوں اور اغوا کاروں کے قبضے میں تھے گوادر میں بڑے بڑے ہاوسز کے نام پراور اشرافیہ کو زمینیں الاٹ ہورہی تھیں ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد شہید کیئے جارہے تھے ،

ریکوڈک کا پنڈورا بکس بھی اسی دور کا نتیجہ ہے جس کے لیئے صوبائی حکومت کے خزانہ سے خطیر رقم نکالی گئی، گوادر کا پہلا معاہدہ مشرف دور حکومت میں 2007 میں ہوا جس کے فوری بعد نواب صاحب وزیراعلی بن گئے تو انہوں نے سنگاپور سے کیئے گئے معائدہ پر کوئی اعتراض نہیں کی بلکہ بارہا یہ کہتے رہے

کہ اگر مزاحمت کار مداخلت نہ کریں تو گوادر سنگاپور بن جاہیگا بعد ازاں دوسرا معاہدہ جو سنگاپور نے چین کے ساتھ کی وہ معائدہ نواب صاحب کے ہی دور حکومت میں طے پایا ، جن منصوبوں کے تحفظ کے لیئے آج گوادر میں باڑ لگائے جارہے ہیں

یہ سارے منصوبے مشرف دور حکومت بعد ازاں 2007سے2013 تک منظور ہوئے بدقسمتی سے اپنے گناہوں کو کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کا ایک وطیرہ چلا آرہا ہے جسے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ختم ہونا چاہیے۔پارٹی ترجمان نے کہا ہے کہ نواب صاحب اور ان کی جماعت آج بھی گوادر میں باڑ لگانے کی مذمت نہیں کرسکتا اور باڑ لگانے کی مذمت کرنے کے بجائے حاضری لگانے اور عوام کی توجہ کا مرکز بننے کے لیئے یہ غیر منطقی ٹیوٹ داغ دیا گیا ہے،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *