15 جولائی ترک جشن جمہوریت میں گزر گیا مگر بلوچستان ہمیں یاد نہ رہا

| وقتِ اشاعت :  


15 جولائی کو ملکی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے وسیع تر سوچ رکھنے والے جمہوریت پسند، اہلِ دانش و قلم اورعوام نے جمہوریہ ترکی کے ساتھ برادرانہ و جمہوریت پسندی کی مشترکہ سوچ رکھنے کی وجہ سے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا اور ترک عوام کو خوب داد دی، جنھوں نے 2016 کو اسی دن ترک مسلح فوج کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر مارشل لاء کے نفاذ کو ناکام بنایا۔ ترک عوام نے اس دن ثابت کیا کہ انھیں آمریت کسی بھی صورت قبول نہیں اور ہر حال میں ترکی ایک جمہوری ملک ہی رہے گا۔ترک فوج بھرپور تیاری کے ساتھ شہروں میں اتر چکی تھی۔



چین کے خلاف انفارمیشن وار

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ ہفتے امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز سے الحاق شدہ سائنسی جریدے میں ایک تحقیق شائع ہوئی اور ایک ہی روز میں اس پر ریوٹرز سے لے کر نیو یارک ٹائمز تک نے مضامین اور آرٹیکلز شائع کر ڈالے اور اس عمل کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے تحقیق سوائن فلو اور انفلوئنزا فلو کا سبب بننے والے وائرس ایچ ون این ون (H 1 N 1) سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ انفلوئنزا فلو سے سال 2019 میں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئی تھیں مگر نئی شائع شدہ تحقیق کے مطابق کورونا جیسی ایک نئی وبا چین میں پھیلنے کا خطرہ ہے اور گزشتہ سالوں کے جو اعداد و شمار تحقیق اور اس سے متعلق شائع ہونے والے مضامین میں شا مل کیے گئے۔



بلوچ قومی تحریک اور شہید حبیب جالب بلوچ

| وقتِ اشاعت :  


بلوچ قوم نے قیام سے قومی و طبقانی نظام کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے۔ 14 جولائی آج وہ دن ہے جس میں بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کو شہید کیا گیا۔ نام حبیب اللہ، تخلص جالب المعروف حبیب جالب لوچ، ولدیت خیر الدین، قبیلہ پرکانی بلوچ، تاریخ پیدائش 1955 ء جائے پیدائش مری آباد کوئٹہ، شادی 1998ء۔ ابتدائی تعلیم میٹرک 1972 یزدان خان ہائی سکول کوئٹہ، ایف ایس سی 1975 ء سائنس کالج کوئٹہ، بی ایس سی 1978 بلوچستان یونیورسٹی، ایم اے آئی آر بلوچستان یونیورسٹی، ایل ایل بی لاء کالج کوئٹہ جلا وطنی کے دوران روس میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔



حکو مت بلو چستان کے تعلیمی اقداما ت

| وقتِ اشاعت :  


کسی بھی معاشر ے میں شعوری اقدار کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لیے تعلیم کی افادیت و اہمیت سے انحراف نہیں کیا گیا ہے تعلیم کو زندہ قوموں اور مہذب معاشرے کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت تصور کیا جاتا ہے تعلیم یافتہ سماج باحوصلہ، بلند ہمت، انسانی اقدار کا سچا علمبردار مانا جاتا ہے تعلیم کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ پاکیزہ اور صالح افکار سے متصف معاشرے کی تشکیل عمل میں آجائیے تاکہ سماج ہم دردی غمگساری اور خیرسگالی کے جذبے سے معمور ہوعصر حاضر سے ہم آہنگ تعلیمی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعلیم میں انقلابی اقدامات ناگزیر تصور کی جاتی ہیں۔



پہلی گرفتاری

| وقتِ اشاعت :  


بیت الخلاء و غسل خانہ استعمال کے لئے باہر پانی کا ایک نل لگا ہوا تھاجس کے ساتھ چند لوٹے اور چند گھی کے خالی بڑے کنستر جن سے قیدی بیت الخلاء اور غسل خانہ استعمال کرنے کے لئے پانی لے جاتے،کھولیوں میں پیشاب کے لئے ایک ٹین دیا جاتا جس میں بغرض ضرورت قیدی پیشاب کرتے اور صبح اپنے ہی پیشاب کو بیت الخلاء کی نالیوں میں بہاتے ،پیٹ خراب ہونے کی صورت میں بھی مجبوری کے تحت یہی ٹین استعمال کیا جاتا، ہاں بیرکوں میں بیت الخلاء بنے ہوئے ہوتے لیکن ان کا درازہ آدھا ہوتا تاکہ نمبر دار بیت الخلاء استعمال کرنے والے قیدی کو چیک کرسکے۔



کالج کو ترستی سوراب کے گرلز اسٹوڈنٹس۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


مرد اور عورت وہ اہم ستون ہیں جن پر معاشرہ قائم ہے۔دونوں معاشرے کا لازم و ملزوم حصہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے بغیر یہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ پھل پھول سکتا ہے۔ اس معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے دونوں کا کردار اہم ہے۔جس طرح کسی معاشرے کے افراد کی ترقی کیلئے تعلیم لازمی ہے اسی طرح یہ تعلیم مرد و عورت دونوں کے لئے لازم ہے۔تعلیم جس طرح مرد کے ذہن کے دریچوں کو کھولتی ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھی شعور کی منزلوں کو طے کر سکے۔اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے۔



**ٹوئیٹر و سوشل میڈیا پر بلوچستان کی تیز رفتار ترقی اور ہمارا نظام احتساب*

| وقتِ اشاعت :  


ایک بادشاہ کسی سفر پر جا رہا تھا کہ اس نے اونٹوں کے ایک گلہ کو دیکھا جوکہ ایک ہی قطار میں ڈسپلن کے ساتھ جا رہے تھے، بادشاہ نے اس چرواہے سے پوچھا کہ اس طرح اونٹوں کو ڈسپلن برقرار دیکھنے میں آپ کس طرح کی حکمت و منطق ایجاد کی ہے تو چرواہے نے کہا کہ سخت فیصلے اور غلطی پر سزا تو بادشاہ متاثر ہوا اور اسے اپنی بادشاہی میں وزارت داخلہ دینے کی پیشکش کی اور ملک میں مثالی امن وامان کی بحالی کی شرط پر وزارت داخلہ چرواہے کو دے دی گئی۔ ایک مرتبہ کسی چور کو وزیر داخلہ کی عدالت میں لایا گیا تو موصوف وِزیر داخلہ نے بیانات سننے کے بعد چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا۔



”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“

| وقتِ اشاعت :  


سال امسالین کتب بینی کے لحاظ سے اشتیاقیہ رہا ہے۔جب دنیا کورونا کے باعث گھروں تک محدود تھی، اب تو سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے،اب ہم بھی گھروں تک اتنے محدود نہیں رہے، ابتدائی دنوں سے مجھ سمیت میرے چند ہمسروں نے جو کتب بینی کا اشتیاق رکھتے ہیں اپنے اپنے آشیانوں میں محصور مطالعہ کتب سے محظوظ ہوتے رہے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا اگر میں اپنے لیے سال حال کو کتب بینی کا سال کہوں۔گھر میں مقید رہنے کا تجربہ مجھ سمیت چند کتابوں کے اشتیاقیوں کا مفید رہا ہے البتہ چند عوامل نے پر یشان بھی کر رکھا جس میں کورونا کی وبا تو سر فہرست ہے۔اچھی خبر سننے کو یہ ملتی ہے کہ کورونا کا عتاب کم ہوا ہے اور کیسسز میں کمی آرہی ہے۔



مزاحیہ فیصلے اور طالب علموں کا مستقبل

| وقتِ اشاعت :  


کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔اگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعلیم یافتہ افراد کے اس فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک مزاحیہ فیصلے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ مزاحیہ فیصلہ طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق ہے۔جب بیوقوفوں کی مجلس سجتی ہے تو فیصلے ایسے ہی مزاحیہ اور طنزیہ آتے ہیں کیونکہ بیوقوف لوگ سوچ بچار کے بعد فیصلہ لینے کے بجائے دوسروں کی تقلید میں فیصلے صادر فرماتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ معروضی حقائق کی روشنی میں فیصلوں پہ عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے؟



پہلی گرفتاری

| وقتِ اشاعت :  


اس دن سال 1973ماہ اگست کی بیسویں تاریخ تھی،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈ نٹس کے اراکین صبح دس گیارہ بجے کے قریب سائنس کالج کوئٹہ کے گیٹ کے سامنے جمع ہونے لگے،سائنس کالج کے دونوں گیٹوں کے باہر پولیس اور فیڈرل سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری ڈنڈوں‘بندوقوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے لیس کھڑی تھی۔ اس احتجاج میں ہمارے قائدین میں گلزار احمد بادینی جو سائنس کالج کوئٹہ یونین کے نائب صدر بھی تھے، پیش پیش تھے اور محمد عمر مینگل جو ڈگری کالج کوئٹہ کے طالب علم تھے، نمایاں کردار اداکررہے تھے۔