نجی تعلیمی اداروں کی ذمہ داران اور حکومت کے درمیان تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف ایک سرد جنگ جاری ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن نے یکم جون سے ملک بھر میں اسکول کھولنے جبکہ حکومت نے پندرہ جولائی تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے، اسکول انتظامیہ اس اعلان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،اور یہ احتجاج اپنی جگہ ٹھیک ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مارکیٹیں،ہوٹلز ریسٹورنٹس،وغیرہ کھل گئے ہیں تو تعلیمی ادروں کا کیا قصور، اگر تعلیمی اداروں کی بندش مزید بڑھ گئی تو بچوں کے تعلیم پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر ہمیشہ بلوچستان کے متعلق بری خبریں ہی ملتی ہیں، کہیں دہشت گردی تو کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں غداری،کہیں خون میں نہاتے بے گناہ شہری تو کہیں پر باغیانہ کاروائیاں۔ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے بلوچستان میں قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔ لیکن سوال ابھرتا ہے کہ کیا بلوچستان میں کوئی تعمیری سرگرمیاں یا کوئی مثبت کام نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے؟تو وہ بہت کم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں۔حالیہ کرونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن نے تمام شعبوں کو سخت متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت سے آتا ہے جس میں گندم کپاس مکئی اور بہت سی فصلیں شامل ہیں ان کو مختلف قسم کی بیماریاں،کیڑے مکوڑوں اور بجلی کے لوڈشیڈنگ جیسے بڑے مسائل پیش آتے ہیں ان مسائل کے علاوہ اس بار ایسے حشرات حملہ آور ہوئے ہیں جو کم و بیش 20 سال پہلے حملہ کر چکے تھے، ایک بار پھراس آفت کا نازل ہونا ملک کے لیے بڑے خطرے سے کم نہیں پہلے سے کرونا جیسی وبائی مرض پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ زراعت سے ہماری جی ڈی پی کا تقریباً 22 فیصد حصہ آتا ہے اس کے علاوہ زراعت 44 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
نجی تعلیمی اداروں کی ذمہ داران اور حکومت کے درمیان تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف ایک سرد جنگ جاری ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن نے یکم جون سے ملک بھر میں اسکول کھولنے جبکہ حکومت نے پندرہ جولائی تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے، اسکول انتظامیہ اس اعلان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،اور یہ احتجاج اپنی جگہ ٹھیک ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مارکیٹیں،ہوٹلز ریسٹورنٹس،وغیرہ کھل گئے ہیں تو تعلیمی ادروں کا کیا قصور، اگر تعلیمی اداروں کی بندش مزید بڑھ گئی تو بچوں کے تعلیم پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اکثر بچے اسکول چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔
عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ اپنی بساط کے مطابق نئے کپڑے وغیرہ پہن کر کوئٹہ شہر کے نامور مقرر مولانا کے اقتدا میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنے نکلا۔ وہ مسجد اچھے خاصے صاحب ثروت لوگوں کے محلے میں واقع ہے۔ ساڑھے سات بجے نماز کا اعلان ہوچکا تھا۔سات بجے مسجد پہنچااور حسب روایت عیدالفطرکے پر مغز تقریر کے انتظارمیں تھالیکن مولانا صاحب مسجد میں موجود نہیں تھے۔ آس پاس لوگوں سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے طور پر اس مرتبہ تقریر نہیں ہوگی۔خطبہ دو رکعت نماز اور مختصر دعا ہوگی۔
یہ زندگی کی پہلی عید گزری جو گزشتہ تمام عیدوں سے مختلف تھی اور ایسے موقع پر آئی جب دنیا کورونا جیسی عفریت سے نبردآزما ہے۔جس نے پورے نظام زندگی کو ہیچ کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی تہوار اس جذبے سے نہیں منایا جا رہا جس طرح عام زندگی میں منایا جاتا تھا۔دنیااب اسی کوشش میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح نظام زندگی کو معمول پر لائے۔کبھی کبھی مثبت اشارے بھی ملتے ہیں کبھی کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ کورونا کم بخت کبھی معدوم نہیں ہونے والا لہذا اس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ابھی میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ کب کورونا سے نجات پائیں گے اور کب زندگی معمول پر آئے گی۔
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کا ایک اور مسافر بردار طیارہ 22 مئی کو کراچی کے گنجان آباد علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس تازہ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان تحقیقات سے بھی کوئی غیر معمولی نتائج اخذ نہیں کیے جاسکیں گے اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے نئے وعدے اور دعوے کرکے پھر سب ہی خاموش بیٹھ جائیں گے۔ نئے کسی سانحے تک قوم بھی اس واقعہ کو بھلا دے گی۔پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں 83 ائر کرافٹ حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ ان میں پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کے طیاروں کو 21 حادثات پیش آئے ہیں تاہم پاکستان ائر فورس کے طیاروں کو مجموعی طور پر 24 حادثے پیش آئے ہیں۔
کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق لاکھوں افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں کورونا وائرس نے ترقی یافتہ دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے کورونا وائرس سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور اس خطرناک وائرس کی بدولت عالمی دنیا اور اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ عالمی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے وہاں ترقی پذیر ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور مزید ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن فارمولے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس سے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کا فارمولا سمجھا جا رہا تھا اسی لاک ڈاؤن سے غربت کی شرح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔