اس وقت پوری انسانیت کو ایک عالمی وباءnCovid-19(نول کورنا وائرس)نے ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے دراصل پینڈیمک یا عالمی وباء کی اصطلاح ان بیماریوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جنکی انفیکشن سے دنیا بھرمیں ایک ہی وقت میں بہت سے افراد متاثر ہوں اور وائرس قدرے نیا ہواور لوگوں کو باآسانی متاثر کرنے کی صلاحیت زیادہ رکھتا ہو اور ایک سے دوسرا انسان بہ آسانی حاصل کرسکتا ہو۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر کی اکثر دکانیں بند تھیں، شاہراہوں پر معمول سے کم ٹریفک رواں دواں تھا۔ منچلے نوجوان اس لاک ڈاؤن کو ایک مذاق اور تفریح سمجھ کر پکنک منانے مختلف پکنک پوائنٹس کی طرف جا رہے تھے۔ محلے کے اکثر گلی کوچے کرکٹ گراؤنڈ بن چکے تھے۔لوگ یہ جانتے ہوئے کہ شہر میں کیوں لاک ڈاؤن ہے؟ پھر بھی گھروں میں رہنے کی بجائے آوارہ بن کر شاہراہوں، دکانوں کے سامنے اور عوامی مقامات پر اجتماع لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔
دنیاکے تمام ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث افراتفری اور خوف میں رہتے ہوئے فیصلے کررہے ہیں لیکن ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک چین سے پھیلنے والے وبائی مرض میں چین کی حکومت اور عوام نے اپنے مصمم ارادے اور محنت سے کام کرنے کے بعد اس وبائی مرض پر قابو پالیا ہے بلکہ اب چین کی حکومت پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اپنے ڈاکٹرز، ماہرین اور حفاظتی سامان و آلات بھجوا کرانسانیت کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
انسانیت کے جزبے سے سرشار لوگ کبھی یہ نہیں دیکھتے ہیں،کہ انسانیت کے خدمت اور سماجی کاموں کے لئے انکے پاس کیا وسائل موجود ہیں۔ ایسے لوگ کسی مسیحا کے انتظار کئے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت سماجی کاموں کا آغاز کرتے ہیں۔کیونکہ انکے اندر جزبے اور حوصلے انہیں آگے بڑھانے میں موقع فراہم کرتے ہیں اور ناممکن کو ممکن بنادیتے ہیں۔ مکران کے ضلعی ہیڈکوارٹر تربت میں نوجوانوں کے ایک ٹیم نے اپنے علاقے میں فروغ تعلیم کے لئے اپنی مدد آپکے تحت مفت ٹیوشن پڑھانے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں وہ علاقے کے غریب طلباء و طالبات کو رضاکارانہ طور پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی بجائے پورے ملک کا وزیر اعظم اور رہبر کی سیٹ پر براجماں ہے۔ انھیں 22 کروڑ عوام نے رہنمائی کیلئے ملک کی آئین کے مطابق وزیر اعظم منتخب کیا گیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس جیسی موزی مرض کے مقابلے کا سامنا ہے۔ چین سے شروع ہونے والا کورونا وائرس چین میں تقریباً ختم کر دیا گیا ہے جبکہ دنیا کے 196 ممالک میں آئے روز نئے نئے کورونا کے مریض پیدا ہو رہے ہیں اور اس وقت پوری دنیا میں 18 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔تمام ممالک اپنے طور طریقوں اور اجتماعی عوامی قوت سے اس موزی مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی آئے روز اس وبائی مرض کے نئے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
عالمی منظرنامہ کے حقائق دیکھیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بوکھلاہٹ کا شکار ہے اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے، پوری دنیا کی مارکیٹیں بند ہیں، آبادیاں کی آبادیاں جیلوں میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں، کارخانے، ٹریفک، ریل و ہوائی ٹریفک کے پہیے جام ہیں، ساری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی، انسانی دماغ اور اس کے کنٹرول کی قلعی کھل گئی ہے، ہر طرف دہشت کا راج ہے خوف کا ماحول ہے، ہر شخص کے زہن میں کرونا اور اس کی ہلاکت خیزی کا تصور ہے پوری دنیا نے خود محدود سے محدود اور محصور کرلیا ہے حتیٰ کہ ان ممالک نے بھی خود کو بند کرلیا جو ابھی تک کرونا کی ہلاکت خیزی سے بچے رہے ہیں، آخر اتنا غیرضروری خوف و ہراس کیوں اور کیسے پھیل گیا؟ ساری دنیا کے اعلیٰ دماغ مفلوج ہوکر کیوں رہ گئے؟ کیا یہ کسی نئے عالمگیر ورلڈآرڈر کی حکمت عملی ہے؟
کتابوں سے محبت کرنے والی ایک شخصیت کے بارے میں آج خیال تھا کچھ ذکر ہوجائے لیکن اس سے پہلے ہم چاہتے ہیں ان ڈاکٹرز کو سلام پیش کریں جو تمام ممکنہ خطرات کے باوجود ایک انسانی جذبہ اور لگن کے ساتھ پوری دنیا میں “کرونا وائرس” جیسی بلا یا وبا سے نبرد آزما ہیں… Read more »
پوری انسانیت کرونا وائرس جیسی ہولناک بیماری کا شکار ہے۔ چین سے شروع ہونے والی وبا نے کیا امریکہ اور کیا یورپ، پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔سپر طاقتیں اور ترقی یافتہ ممالک سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ اب تک دنیا کے طول عرض میں 3لاکھ سے زائدافراد اس سے متاثرہوچکے ہیں جبکہ 13ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں کائنات کے خالق، مالک اور پروردگار کے بندے بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں۔
کرونا کی صورت میں تمام دنیامیں بسنے والے انسانوں کو ایک قہر کا سامنا ہے۔پوری دنیا اب تک تقریباََ 6 لاکھ افراد کرونا وائرس سے متاثرہوئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 27ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔دنیا کے 199ممالک اور علاقے کرونا کے شکنجے میں ہیں اور تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور چین جیسی طاقتور ریاستیں کرونا کے اثرات سے بری طرح متاثر ہیں۔
شکوہ تو عوام سے کیا جارہا ہے کہ وہ اس خطرناک وباء کا تمسخر اڑارہے ہیں اور اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے مگر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی سنجیدہ گفتگو سنی تو عوامی مزاج کی جو برآمدگی کی سوچ ہے پھر تو عوام پرہی ترس آرہا ہے کہ وہ اب بھی نظام اور قدرت کے سہارے کوئی کرشمہ دیکھنے کے منتظر ہیں،خدا کرے کہ کوئی ایسا چمتکار ہوجائے اور اس وباء سے پاکستان اس طرح متاثر نہ ہوجس طرح سے اس انتہائی مہلک مرض نے دنیا کے اہم ترین ممالک کو شدید متاثرکرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت دنیا کیلئے یہ وباء ایک چیلنج بن چکا ہے جسے ایک بڑی جنگ سمجھ کر اس سے نمٹنے کیلئے تمام وسائل کو نہ صرف بروئے کار لایاجارہا ہے بلکہ آئندہ چند سالوں میں جومعاشی صورتحال درپیش ہوگی اس کیلئے بھی پیشگی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اٹلی میں اس وقت سب سے زیادہ خوفناک صورتحال ہے جہاں اموات کی شرح روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں میں ہے۔