بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے لداخ اور جموں کو یونین territories بناتے ہوئے کشمیر کی تین حصوں میں تقسیم بظاہر د و قومی نظریہ کو تسلیم کرکے اور سیکولر بھارت کے چہرے کو ترک کر تے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب شائد پہلا قدم ہے اور یہ کام بھارت کو ہندوتوا ملک بنانے کے نام پر کیا گیا ہے۔
آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصو صاًبلوچستان کے اندر گذشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور موجود ہ حالات کے تنا ظر میں دور اندیش رہنما بابا نزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دو چار ہیں۔ آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑ رہے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ تاریخ کے دو بڑے حصے ہوتیہیں ایک وہ جس کو ہم ماضی کہتے ہیں یعنی جو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ جسکو مستقب کا نام دیا جاتا ہے یعنی جو آنے ولا ہے جس کو ظہور پذیر ہونا ہے اگر کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت وژنری ہے اور عقل و بصیرت رکھتا ہے ۔
ایک ایسے علاقے سے میرا تعلق تھا جہاں ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع ناپید تھے سواری کی ضرورت آن پڑی تو پہلا سوال سیکھنے کا تھا۔آغاز ہی تھا کہ سین لمحوں میں بدل گیا موٹرسائیکل بے قابو ہو ا پہلی بار موٹر سائیکل کی طاقت کا اندازہ ہوا اور سیکھے بنا موٹر سائیکل سے چوٹ کھا گیا۔
اگست کا مہینہ ایک بار پھر آچکا ہے۔ اگست کی پرانی اور دھندلی تصویریں ذہن میں ایک بار پھر سے محوِ پرواز ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک تصویر۔۔گردش کرتی ہوئی تصویروں میں دماغ فضائی میدان بن چکا ہے۔ دورانِ پرواز یہ تصویریں ٹکرا کر پاش پاش نہ ہوجائیں، دماغ شاطرانہ انداز میں ان تصاویر کو ایک دوسرے سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ منتشر خیالات تصویروں کے گرد اپنا ڈیرہ جمانے کی کوششوں میں الگ سے مصروف۔۔
دن بھر انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑے رہنے کے دوران آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلومات کا کون کون سا خزانہ آپ نے چھان مارا ہے اور وہ کون کون سے ذراءع تھے جنہیں نظر انداز کر گئے،انٹر نیٹ کی دنیا ہی ایسی ہے ۔ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا یہ کہ جو کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے کچھ سے جانکاری اور کچھ سے انجان بن جاتے ہیں اپنی فطرت کے حساب سے وہ سب کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔
مولانا صاحب کوئٹہ آئے, پاور شو دکھا کر چلے گئے اس پاور شو میں وہ اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ عمران خان کا دھرنا یاد آگیا۔ بلوچستان میں پاور شو دکھانے کا مقصد کیا تھا یہ خدا جانے۔ جلسے کا مجمع دیکھ کر پہلے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیانگاہیں دھندلا گئیں بڑی مشکل سے آنکھوں کو یقین دلایا ورنہ یقین کرنے یا نہ کرنے سے کیا جائے گا۔ سب لوگوں نے اعتراف کیا کہ کوئٹہ کی سطح پر یہ بڑا پاور شو تھا مولانا صاحب نے عمران خان کو اسی انداز میں للکارا جس انداز میں عمران خان نواز حکومت کو للکار چکے تھے۔
ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کیس میں تقریباً6ارب ڈالر ہر جانے کی ادائیگی کے انٹر نیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آن انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کے فیصلے نے ارباب اختیار کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے افغانستان و ایران کے سنگم پر واقع بلوچستان کے سرحدی شہر چاغی کے ریکوڈ ک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جس میں اب بھی ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اور جیالوجیکل سروے کے مطابق ریکوڈک سے روزانہ 15ہزار ٹن سونا اور تانبا نکالا جاسکتا ہے جس سے پسماندگی اور افلاس کے شکار بلوچستان اور قرضوں میں ڈوبے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمد ن ہو سکتی ہے۔
منان چوک جناح پر اخبارات اور کتابوں کا ایک چھوٹا سا دکان جان بک اسٹال ہوا کرتا تھا۔کتابوں کے ساتھ ساتھ یہ اسٹال دنیا بھر کی معلومات کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ اخبارات سے آنکھیں دو چار ہوتے ہی گاہک اسٹال کی جانب لپک پڑتے، سرخیاں چھان مارتے ہوئے جو اخبار پرکشش معلوم ہوتی وہ خریدار کے حصے میں آتا۔ اخبارات اور کتابوں کی جگہ اب وہاں ایک موبائل کمیونیکیشن سینٹر نے لی ہے۔
ہر ملک اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے ممالک سے تعلقات رکھتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوطی سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے مگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اکثر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ جسکی وجہ امریکہ کا صرف اپنے مفادات کو ہی اہمیت دینا ہوتا ہے۔