|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2019

14اگست آیا اور چلا گیا۔ عید آئی اور چلی گئی۔ جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ جانے والوں کی یادیں جاتے جاتے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اب سوچتا ہوں جانے والوں کی یاد میں وہ کون کون سے لمحات کرید کر آپ کے سامنے لاؤں جن کے ساتھ خوشگوار لمحات جڑے ہوئے ہیں جنہیں یاد کرکے محظوظ ہوا جائے اور انہیں بیان کیا جائے۔

چودہ اگست کو ہوا کیا تھا۔ لوگ جشن آزادی منا رہے تھے۔ کس لیے؟ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے۔ اب خدا جانے آزادی کے حقیقی معنوں سے آشنا تھے بھی یا نہیں، مگر جو منظر میری گناہ گار آنکھوں نے دیکھاوہ یہ سمجھانے کے لیے کافی تھا کہ اوباش نوجوانوں کا ایک ریلہ تھا جنہیں اس دن کی مناسبت سے شور مچانے اور دوسروں کو تکلیف دینے کی آزادی تھی۔ اور جو کچھ انہوں نے کیا اس کے بعد کچھ لوگ حیران و پریشان یہ سوچتے ہوئے اپنا وقت گھروں کے اندر گزارتے ہوئے نظر آئے کہ آزادی کا حقیقی مفہوم واقعی یہی تھا؟

اس روز ہوا کیا تھا جشنِ آزادی کے نام پر لوگ کیا کچھ نہیں کر رہے تھے جھنڈے لہرائے جا رہے تھے مگر جھنڈے تلے کیا ہو رہا تھا اس پر کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا اس لیے کہ کہیں یومِ آزادی کا تقدس پامال نہ ہوجائے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ جس تہذیبی اخلاق کا پرچار ہم کتابوں میں کرتے چلے آرہے ہیں یا سنتے چلے آرہے ہیں اس کا عملی نمونہ زمین پر ایک فیصد بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا،تو سوچتا ہوں کہ درسگاہوں سے ملی اس علم کا کیا کیا جائے جو قوم کا درس دیتے ہوئے انہیں تہذیب اور اخلاق کے ان زینوں پر چڑھانے میں ناکام ہوا۔ اس روز میڈیا نے جھنڈے ضرور دکھائے، جوشیلے تقاریر اور لبریز نعروں کی منظر کشی ضرور کی مگر یہ دکھانے میں ناکام ہوا کہ اس جھنڈے تلے تہذیب کی دھجیاں کس طرح بکھیری جا رہی تھیں۔ اس منظرنامے کو محافظوں نے اپنی آنکھوں میں محفوظ تو ضرور کیا مگر انہیں روکنے کے لیے کوئی کارگر فارمولا نہ لا سکے بھلا ایسا کیوں؟ کیوں کہ جشنِ آزادی کے نام پر سب کچھ جائز قرار پاچکا تھا۔

زمین زادوں کا وہ ریلہ ایک ہاتھ میں جھنڈا دوسرے ہاتھ میں اسپرے لے کر آوارہ گردی کرتا ہوا نظر آیا۔ جھنڈے تلے یہ ریلہ شریف الناس لوگوں کا نفس مجروح کرتا چلا جا رہا تھا راہ چلتے لوگوں کو اسپرے کر رہا تھا، گالیاں کس رہا تھا، بیہودہ حرکات و سکنات کا مرتکب ہو رہا تھا، لوگوں کو موٹرسائیکلوں سے گرا رہا تھا، نقلی بندوقوں سے راہ چلتے مسافروں پر فائرنگ کر رہا تھا یہ سب کچھ کس لیے اور کیوں ہو رہا تھا جشنِ آزادی کے نام پر۔ وہ آزادی جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا وہ خواب جس کی تعبیر علامہ اقبال کے اشعار نے دی تھی وہ خواب جو مولانا محمد علی جوہر کی تحریروں میں پنہاں تھی لیکن تعبیر کے جس مرحلے سے یہ ملک گزشتہ ستر سالوں سے گزر رہا ہے اگر یہ لیڈران آج موجود ہوتے تو کم از کم ایک سوال اپنے آپ سے ضرور کرتے کہ ”کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا؟“ بعض جگہوں سے اطلاعات آرہی تھیں کہ نوجوان جونیپر کی درختوں کو آگ لگانے میں مصروف تھے۔

اب ان نوجوانوں کو سمجھانے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ اور انہیں کون سمجھاتا کہ جھنڈے تلے جو حرکات و سکنات کا مرتکب وہ ہو رہے ہیں وہ یقینا ایک آزاد قوم کی شایانِ شان نہیں بلکہ اخلاق سے عاری غلامی کی وہ نشانیاں ہیں جو انہیں ان کا معاشرہ سکھا رہا ہے یا وہ درسگاہیں جو تہذیب کی کتابوں سے لبریز اسباق کا رٹہ تو لگا رہے ہیں مگر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ تہذیب کا عملی اطلاق معاشرے پر کس طرح کیا جاتا ہے۔تہذیب گئی باڑ میں۔ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔

اب ذراعید کی کہانی تو سن لیں کہ اس روز ہم سب نے کیا کیا گل کھلائے تھے یقینا اس روز جو گل کھلائے تھے زمین اُس پر شرما گئی تھی اور آسمان آب آب۔ مگر زمین زاد تھے اتنے بے حس کہ نہ انہیں آسمان کے آنسو روک سکے اور نہ ہی زمین کے شرما جانے کی پرواہ تھی۔ جو جی میں آیا عیدِ قربانی کے نام پر کر ڈالا۔ عید کا دن خوشیوں میں لبریز بدبودار فضا کی وہ داستانیں سنا رہا تھا اگر خوشبو کو قید کرکے قومی خوشبو قرار دے کر فروخت کیا جاتا تو میرے خیال میں آدھے ملک کی معاشی پریشانیاں یہیں پر ختم ہوجاتیں۔

مگر کیا تھا کہ زمین زاد اپنی پھیلائی گئی اس خوشبودار نظام کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے ہوئے نظر آئے۔ گالم گلوچ سے نوبت دست و گریبان تک آگئی۔ بھلا ہو خوشبودار نظام کا جس نے ہاتھوں کو ناک تک مصروف رکھا ورنہ ایسی لڑائی عیدِ قربان اپنے نام کرنا تھا کہ تاریخ کا حصہ بن جاتا۔سب نے مل کر بدبودارنظام کے اس کارنامے کی تعریف و توصیف کی جووہ عید قربانی کے موقع پر ایک بڑی جنگ کو ٹال کر ادا کر چکا تھا۔

”صفائی نصف ایمان ہے“۔ ہمارا آدھا ایمان تو در ودیوار اور سڑکوں کے اندر گندگی پھیلاتے ہوئے ہی ختم ہوتی نظر آئی اور رہاآدھا ایمان نہ جانے وہ کون کون سی خرافات میں گزارتے ہوئے نظر آتی ہے تو سوچتا ہوں بچنے کے لیے ہمارے پاس کیا رہ جاتا ہے سوائے ایک کفر کے فتوے کے۔ مگر ہمارے پاس احادیث کی وہ محفوظ اشکال موجود ہیں جن سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے اور ہونے کے باوجود ہم ابھی تک تہذیب یافتہ ہیں اور جنت میں جانے والوں میں شمارہوتے ہیں۔ آدھا ایمان بچاتے بچاتے ملا کو اپنا ایمان اس وقت متزلزل نظر آیا جب یہ سارا منظر اس کی نگاہوں نے اپنے اندر محفوظِ کرم فرمایا مگر کھال کی ڈھیر کو دیکھ کر حرفِ تمنازبان پر لاتے لاتے رہ گئی۔

عید قربانی کے بعد گندگی کا جو نظام ہم نے بنایا۔ گندگی کا وہ ڈھیر یا تو ہم ہمسائے کے گھر کے سامنے ٹھکانے لگا تے ہوئے نظر آئے یا خالی سڑکیں کام آئیں۔ ہم نے تکلیف کا جو خزانہ معاشرے کے لیے کھول دیا تھا اس کے لیے ہمارے پاس ایک اچھا سا بہانہ تھا وہ یہ کہ رب غفور و رحیم ہے۔ وہ معاف کرنے والا ہے اس لیے کہ اول تو ہم مسلمان ہیں دوئم یہ کہ ہم نے قربانی کی،تیسرا یہ کہ ہم نے عید کی نماز ادا کی اور چوتھا یہ کہ ہم کلمہ طیبہ کے وارث ہیں۔ اب اگر پوچھا جائے کہ بھئی انسانوں کے وہ حقوق جو رب کی طرف سے دوسرے انسانوں پر عائد کیے جا چکے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ تودلائل کام کرنا چھوڑ دیں جواب کیا ملے گا یہی کہ اسلام کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو بحث نہیں کیا جاتا۔یہ چپ کرانے والی ہتھیار ہے۔

یہ وہ ہتھیار ہے جو ہمارا استحصالی طبقہ بوقتِ ضرورت استعمال کرتا ہے وہ یہ ہتھیار اسلام اور ریاست دونوں کے نام پر کرتا ہے جن کا شکار ہوکر معاشرتی طبقہ کچھ کہہ نہیں پاتا فتویٰ اور غداری دو ایسے ہتھیار ہیں جو کسی بھی وقت کام آسکتے ہیں اور ان کا کوئی مداوا نہیں۔

عید کے چوتھے دن پیدل سفر کرتا ہوا کہیں جا رہا تھا تو نظر گندگی کے اس ڈھیر پر پڑی جنہیں خاکروب آگ لگا رہا تھا اوروہاں پڑی قربانی گاہ کی آلائشیں چیخ و پکار کرتے ہوئے نظر آئے۔ آگ لگاتے ہی دھویں کا بادل فضا میں نعرہ تکبیر لگاتا ہوانظر آیا۔ پورا محلہ مہکتی ہوئی اس خوشبو سے سرور میں آچکا تھا اور اپنے اوپر نازاں تھا، دور دراز کی آبادی جو اس مسرور کن خوشبو سے محروم تھا اپنی بدقسمتی پر اپنے آپ کو کوستے ہوئے نظر آیا۔ فضا میں تہذیب کی فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے یہ دھویں تہذیب کا کایا پلٹتے ہوئے نظر آئے اور یقینا تہذیب اور آزادی کی ایسی فضا سے حقیقی تصور ہو ہی نہیں سکتا سو تہذیب کی اُس پرکشش نعرے سے محظوظ و مسرور ہوتا ہوا جشن آزادی اور عیدِ قربانی مبارک کا ورد کرتا ہوا منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں تھا جہاں ایسے کئی اور مناظر میری منتظر تھیں۔