گوادر کی ترقی اور پاک چائنا اقتصادی راہداری کے چرچے اور گوادر کو سنگاپور بنانے کی خبریں اور اشتہارات کی برمار نے ہم جیسے پسماندہ ذہن رکھنے والوں کو کافی پریشان کر دیا ہے کہ گوادر تو ترقی کرکے کہاں پہنچا ہے اور ہم تعلیمی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں ۔کیا ہم آنے والے چلینجز کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں ۔
کھیلوں کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام لیکن جسمانی طور پر معذورکھلاڑی راجر کریفورڈکا کہنا تھا “آزمائشوں کا سامنا زندگی کے چند بنیادی حقائق میں سے ایک ہے جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی، تاہم جدوجہد ترک کرتے ہوئے خود کو شکست کے دہانے پر لا کھڑا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے”۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی 770میل طو یل ہے یہ نہ صرف اپنی جغرافیائی محل و وقوع کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اپنے زرخیز اور قیمتی و نایاب آ بی حیات کی وجہ سے بھی اہم سمجھا جا تا ہے ۔ ڈام بندر سے لیکر جیونی کے نیلگوں پانی کے دہانے
کوہِ باتل کے دامن میں دیمی زِ ر اور پدی زِر کے حسین سنگم سے ایک جزیرہ نما شہر گوادر سے میری بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ، جن کا تعلق میری روح سے سمٹی ہوئی اپنائیت اور محبت کے ساتھ سیاست کا وہ خارزار ہے کہ جس میں دکھ سکھ کے ساتھیوں کی ایک بڑی فہرست میری زندگی کے ہر پہلو میں پیوست نظر آتی ہے
آنے والے نئے سال میں بلوچ قومی تحریک کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگا ۔ حالیہ کچھ عرصوں میں بلوچ نیشنلزم نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اگر ہم بلوچ نیشنلزم کے ارتقائی عمل کاباریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں بہت کچھ اب تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
سسی پیک تو بلوچستان میں ہے مگر ترقی پنجاب میں ہورہی ہے ؟ یہ سوا ل گوادر کے ایک طا لبہ نے خادم ۱علیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے پو چھا ۱س سو۱ل کا جواب دینے سے تو خادم ۱علیٰ قاصر رہے مگر ایک قہقہے کے بعد خاموشی اختیار کرلی۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ملکر پاکستان میں زراعت کی ترقی اورفوڈ سیکورٹی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کسانوں کے مسائل کے حل اور ان تک فصلوں کی نئی اقسام اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔
نہیں معلوم مجھے کس کی نظرِ بد لگی ہے، سینکڑوں سالوں سے مختلف مصائب کا شکار ہوں، لیکن پیاس کی آس نے میری پوری بدن کو جھلسا دیا ہے، جب سے قدرتی نظام میں بارانِ رحمتوں کا سلسلہ طم گیا ہے تب سے میں پیاسا ہوں۔
وہ شخص جو کراچی کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی میں اپنا کیمرہ لہراتے ہوئے، زندگی کے ہر لمحے کو قید کرتا ہے اور زندگی کے عکس دوسرے دن پورے سماج میں پھیلاتا ہے، ہر برائی کو فلیش مارتے ہوئے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے ظلمتوں کے عکس بناتا ہے،
غُربت بیماری اور بے بسی کسی گرم تپتے صحرا میں وہ بدنصیب اور بھٹکے ہوئے مُسافر ہیں جو اپنی برسوں کی پیاس بُجھانے زندگی کی ختم نہ ہونے والی طویل مُسافتیں طے کرنے ، گرم آلود ہواؤں کے تھپیڑوں میں ریت کے ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے کو سر کرتے بوجھل