|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2016

بالادست و زیردست،آقا و غلام،جاگیردار و محنت کش، زمیندار و باجگزار،مالک و مزدور کا رشتہ کوئی نیا نہیں، اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ رشتہ دنیا کا سب سے زیادہ تکلیف دہ رشتہ ہے.جس میں بالا و زیریں رشتوں کا تصور عملی طور پر انسان کو طبقات میں تقسیم کرکے اسے فطرت کے مساویانہ قوانین کے خلاف اعلیٰ و نچلا،برتر و بد تر جسے گروں کا پابند بنانے پر مجبور کرتے ہیں.پھر بالا رشتے اپنے ہر جائز و ناجائز کام و ضروریات کے لیے زیریں رشتے کو جسمانی و ذہنی تشدد و دباؤ کے تحت حکم بجا لانے کے لیے بھی مجبور کیا کرتے ہیں.اور زیریں رشتے بالا رشتے کی ہر کام و ضرورت اور حاجات کو صحیح وسلامت مکمل کرکے اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے اور اسے ہمیشہ پر مسرت رکھنے کیلئے اپنی زندگی کے تمام تر مسرتوں کو داؤ پر لگاکر قربان کردیتے ہیں.تاہم اس کے باوجود بالا رشتے خوش ہونے کی بجائے ناخوش رہتے ہیں کیونکہ اس کے ذہن میں بالادستی کاتصور پرورش پاتا ہے.وہ ہر بات،ہرنقل وعمل اور حرکت پر اسے زیر دست ہونے کا احساس دلانے کیلیے اپنا تکبرانہ رویہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بالادست اورآقا ہے۔ اسی طرح ہوا کچھ یوں جب گزشتہ دنوں لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے گوادر کی ایک طالبہ نے تقسیم لیپ ٹاپ تقریب میں اقتصادی رہداری وسی پیک سے متعلق سوال کیا.سوال کچھ اس طرح سے تھاکہ”اقتصادی راہداری گوادر میں بن رہی ہے.اور ترقی لاہور میں ہورہی ہے.”وزیرعلیٰ پنجاب نے ایک تکبرانہ قہقہے میں طالبہ کی بھری مجلس میں تضحیک کرکے سوال کو نمٹاتے ہوئے یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ آقا و غلام، بالادست و زیردست کے درمیان سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتے.موصوف کا جواب کچھ اس طرح تھا”کہ سی پیک سے پہلے پنچاب میں میٹرو بس سروس،دانش سکولز،اور سڑکوں کا جال تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک منصوبے سے پہلے پنچاب ولاہور میں ترقیاتی کا م ہورہے تھے.لیکن سولر پاور پروجیکٹس، اورنج ریلوے لائن، اور سڑکو ں کا جال اب بھی موصوف کے صوبے و اسکے شہروں میں بن رہے ہیں.لیکن سی پیک وگوادر کے نام پر صرف پنجاب میں کیوں اوردوسرے صوبوں کیوں نہیں؟ یہی نہیں جبکہ گوادر کے طلباء کی جانب سے موصوف کو دئیے گئے ظہرانہ کے موقع پر طلبا ء نے مزید سوالات کئے کہ”سی پیک کا سن سن کر تھک چکے ہیں.ہمیں پینے کا صاف پانی، تعلیم وصحت کی سہولیات تک میسر نہیں. وی آئی پی دوروں کے دوران گوادر میں بجلی لوڈشیڈنگ ختم ہوجاتی ہے انکی واپسی کے بعد دوبارہ لوڈشیڈنگ شروع ہوجاتی ہے حتیٰ کہ کپڑے استری کرنے کے لیئے بھی بجلی نہیں ہوتی.اور چینی زبان سیکھنے کے لیئے بھی طلبا کو لاہور سے بھیجا جارہاہے تو موصوف کے ہوش اڑھ گئے۔کیونکہ اسے کیا پتہ تھاکہ مفلوک الحال اور تعلیمی حوالے سے پسماندہ صوبے کے طلباء بھی اتنا کچھ جانتے ہیں تو موصوف کا انداز تمسخرانہ و تکبرانہ تھا۔اس حوالے سے سوشل میڈیاپر ایک نئے بحث نے جنم لیا.اس منظر کو ٹیلی ویڑن چینلز پر لوگوں نے بھی دیکھا اورملک کے سب سے خوشحال و ترقی یافتہ صوبے کے سربراہ کے تکبرانہ رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا.اکثر لوگوں کا خیال تھاکہ موصوف کو طالبہ کے سوال کا علم ،منطق اور دلیل کی بنیاد پر مدلل انداز میں شائستگی کے ساتھ جواب دے کر مطمئن کرنا چائیے تھالیکن اس نے تکبرانہ قہقہے میں طالبہ کی تضحیک کرکے محروم صوبے کی دل آزاری کرکے بالادست و زیردست کے سوچ کو جنم دیاجو نسلی تعصب کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ آج بلوچستان و گوادر جس اذیت ناک کیفیت یا جن مشکلات و تکلیف دہ حالات سے گزر ر ہے ہیں اس کا شاید اسلام آباد کی پر مسرت فضاؤں میں بیٹھے ہمارے پالیسی بنانے والے سوچ بھی نہیں کرسکتے۔آئین کے آرٹیکل نمبر 25میں لکھا ہے کہ تعلیم تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے اور تمام شہریوں کو یکساں تعلیم کا حق و سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے.مگر آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ بلوچستان میں مجموعی شرح تعلیم صرف 37فیصد جبکہ عورتوں میں شرح تعلیم صرف 25فیصد ہے.جبکہ تعلیمی ادارے شدید زبوں حالی کا شکار ہیں.بلوچستان میں کل پرائمری سکولز میں سے 7500سکولز ایسے ہیں جن میں طلباء کی تعداد 100سے زائدہے اور وہ خستہ حال وبوسیدہ کمروں میں خوف کے عالم میں سکول میں موجود واحد استاد سے تدریسی عمل جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت ہے اگر دانش سکولز پنجاب کے مختلف شہروں میں معیاری تعلیم کے حوالے سے سرفہرست ہیں تو بلوچستان میں دانش سکولز کیوں نہیں بنتے ؟اس کے علاوہ،بلوچستان کے شہروں میں نہ علاج و معالجے کی بہتر سہولیات میسر ہیں نہ بجلی و گیس کی دستیا ب ہے.سوئی گیس اگر چہ 1952 میں ڈیڑہ بگٹی،سوئی سے نکلی. صوبہ سندھ سے گیس دریافت ہونے سے قبل بلوچستان ملک کو90فیصد گیس فراہم کرتی تھی.اب بھی 36فیصد گیس فراہم کررہی ہے لیکن بد قسمتی سے اب تک کوئٹہ سمیت بلوچستان کے صرف 14شہروں کو بمشکل گیس کی سہولت میسر ہے اورباقی ماندہ بلوچستان تاحال اس سے محروم ہے۔ اس طرح بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث بلوچستان میں ذریعہ معاش بھی تباہ ہوچکے ہیں.بلوچستان میں زرعی ترقی کیلیے کوئی بھی اصلاحی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے .تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں لے کر مختلف اداروں کے چکر کاٹ رہے ہیں. لیکن بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور رشوت ستانی نے لوگوں کو بری طرح مایوس کیا ہے.میرٹ نام کی کوئی شے سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی.ستم ظریفی کی انتہاء یہ کہ کسی متاثرہ فریادی کا فریاد تک سننے کو کوئی تیار نہیں. وزیراعلی ٰپنجاب کے قہقہوں سے یاد پڑتا ہے کہ اسی طرح مشرقی پاکستان کے طلباء کے ساتھ بھی جنرل ٹکا خان اور صدرایوب خان تمسخرانہ قہقہے لگایا کرتے تھے.انجام کیا ہوا.اب تاریخ کے اوراق میں ہمیں مشرقی پاکستان ضرور ملے گالیکن آقا و غلام،بالادست و زیردست کا احساس دلاتے دلاتے حکمرانوں نے ملک کا ایک اہم حصہ کو گنوادیا. حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے کر قوموں کو تراز میں تولنے کے بجائے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگاکیونکہ کثیرقومی اور کثیرزبانی ملک ہے.جہاں ہر قوم و زبان سے تعلق رکھنے والے لو گ بستے ہیں.قومیتوں کے زبان،ثقافت،بنیادی،سیاسی و جمہوری اور قومی حقوق کی ضمانت اور انکے عزت و احترام کے بغیر وفاق مستحکم نہیں ہو سکتا.