ڈسٹرکٹ تربت کی رہائشی رقیہ (فرضی نام) گھر والو ں سے کسی بات پر جھگڑ کر اْس نے خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی، گھر والوں نے آگ بھجا دی اور اْس کو ڈسٹرکٹ سول ہسپتال پہنچادیا، اْس کے جسم کا آدھا حصہ مکمل طور پر جھلس چکا تھا، چار دنوں تک وہ مسلسل جلن اور درد کی تکلیف سے جوجہتی رہی،کراچی جانے کے لیے اْس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، آخرکار اْس کی موت واقع ہوگئی،اگر ڈسٹرکٹ کیچ میں برن سینٹر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ نہ مرتی۔
سیاسی مباحثوں سے ہمیں فرصت ہی نہیں ملتا کہ ہم معاشرے میں رونماہونے والی دلسوز واقعات کا تذکرہ کریں اور ان کے وجوہات بیان کریں۔ سنجیدہ معاملات کا ذکر کرنا جب محال ہو تو واقعات میں حددرجہ اضافہ ہوجاتاہے۔ کہیں دور دور تک ان افسوسناک واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے۔
پاکستان میں پچھلی دہائی کے دوران زیادہ سے زیادہ طلباء، خاص طور پر لڑکیوں کو اسکولوں میں لانے کے حوالے سے حوصلہ افزاء پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ تاہم ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کو لے کر ابھی بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی شخصیت تھے جس نے پاکستان کی تاریخ میں اپنا نہ صرف نام کمایا ہے بلکہ خاندان کی قربانی دیکر پاکستان اور قوم کو مضبوط بنایا، ملک کو ایٹم بم کا تحفہ دیا، اسٹیل ملز کا تحفہ دے کر ملکی معیشت میں روح ڈال دی، شہید بھٹو نے ملک کو 73ء کا متفقہ آئین دیا۔ قوم کو شناخت دی۔ شعور دیا۔ ووٹ کا حق دیا۔ قومی اسمبلی میں قادیانی فتنہ کو ہمیشہ کیلئے غیر مسلم قرار دے کر باب بند کردیا۔ آج شہید بھٹو موجود نہیں ہیں۔ مگر عمران خان پیپلزپارٹی کا مخالف ہونے کے باوجود اپنے آپ کو شہید ذوالفقار علی بھٹو سے تشبیہ دے رہے ہیں اور بھٹو کی طرح پیش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندھ ہے۔
بلوچستان میں ترقی کے جو اہداف دہائیوں سے حاصل کرنے کی تگ و دو کی جارہی ہے اب تک وہ ایک خواب ہی بنا ہوا ہے اب اس میں مسائل اور وسائل دونوں کے معاملات بھی موجود ہیں۔ بلوچستان میں وفاقی بجٹ کا حصہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرا صوبے کے اپنے وسائل سے ملنے والے محاصل کا معاملہ بھی موجود ہے ان دو اہم اجزا پر کبھی بھی وفاق کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، اس لیے بلوچستان میں ترقی کی رفتار سست ہے۔ بارہا وفاق کے سامنے صوبائی حکومتوں نے مسائل رکھے مگر انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔وفاقی حکومتوں نے اپنی ذاتی دلچسپی کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی تاکہ انہیں وہاں سے بہتر محاصل مل سکیں اور اپنے دیگر پسندیدہ منصوبوں کو تکمیل تک پہنچاسکیں جن میں ان کے اپنے خاص حلقے شامل ہیں جہاں سے انہیں مستقبل میں نشستیں جیتنے کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ یہی ایک المیہ ہے کہ ترجیحات پسماندگی کے خاتمے کی کم اپنی کرسی اور مستقبل کی سیاست کو محفوظ بنانے کی فکر زیادہ ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ آبادی میں سے کم اور گرانقدر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلوچستان میں سونا اور چاندی کے علاوہ کرومائٹس،پرائمٹس سلفر،لوہا،لائم سٹون اور کوہلہ کے بڑے ذخائر موجود ہیں صرف ریکوڈک میں معدنی ذخائر مجموعی طور پر 5.4 ملین ٹن بتائے جاتے ہیں۔سیندک میں 69.1ملین ٹن کاپر اور اور 2.24 ملین اونس سونا موجود ہے اس کے علاوہ کرومائٹ کی 15 سے 20 ہزار ٹن سالانہ پیداوار ہوتی ہے صرف وڈھ میں کرومائیٹ کی پیداوار ایک ہزار سے پانچ ہزار تک ہے جہاں تک لیڈ زنک کا تعلق ہے تو دودر، گنگا اور سر مئی ( لسبیلہ اور خضدار اضلاع)میں مجموعی طور پر 38.66 ملین ٹن لیڈ زنک موجود ہے اسی طرح بلوچستان بڑی مقدار میں کوئلہ بھی پیدا ہوتا ہے مچ،آب گم،خوست،شاہرگ،ہرنانی، سورنیج، ڈیگاڑی سنجدی، دکی اور پیر اسماعیل زیارت میں مجموعی طور پر 262 ملین ٹن کوئلہ موجود ہے ضلع مستونگ میں ایک لاکھ ٹن فلورائٹ موجود ہے لسبیلہ اور خضدار میںبرائٹ کے وسیع ذخائر موجود ہے کل ذخائر 30 ملین ٹن سے زائد ہے
دنیا کی تاریخ میں استاد کا مقام بہت بلند ہے خاص ان معاشروں میں جہاں تعلیم کے اعتبار سے بہت ترقی ہوئی ہے ایک معلم یا معلمہ مزاج میں سخت ہو یا زیادہ پڑھا ہو، ایسی مزاج اور ماحول میں طلباء کیلئے مشکل ہوتاہے اچھی طرح سیکھ سکیں مگر طلباء وطالبات بنا کوئی مشکلات پیدا کیے سہ لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے استاد کا مقام بلند سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی کہ استاد کا مقام بلند ہے۔ وہ معاشرہ ترقی کرتے جہاں استاد کا کردار اہم ہوتا ہے وہ معاشرہ جو ترقی نہیں کرتا اس میں بھی استاد کردار ہوتا ہے اگر عام جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ بناء کسی معلم کے طبیب، انجینئرز، نرس، پائیلٹ یعنی پیشہ ور افراد پیدا ہونا ناممکن کے قریب ہے۔ اگر استاد ان کو وہ تعلیم نہ دے جو معاشرے کے معاملات کو چلا سکیں تو وہ معاشرہ کیسا ہوگا اس کا اندازہ سب ہی کو ہوگا۔
2018 میں اس لائبریری کے لئے 99 لاکھ منظور ہوئے تھے۔ لائبریری کی تعمیراتی کام 2020 کو مکمل ہوا اس دن سے لیکر آج تک لائبریری تالہ بندی کا شکار ہے۔ بی ایس او پچار پچھلیکئی دنوں سے لائبریری بحالی مہم چلارہا ہے، مہم بند لائبریری کے سامنے چٹائی بچھاکر اسڈی سرکل لگانے کے صورت میں چلایا جارہا ہے۔
زندگی میں بہت سے آپ کو آپ کے مطابق نہیں ملتے ان کو انہی کے مطابق دیکھنا سمجھنا اور برتنا پڑتا ہے خاص طور پروہ لوگ جو آپ سے ملتے جلتے اٹھتے بیٹھتے بھی ایک خاص فاصلہ رکھتے ہوں اپنے بارے میں جاننے کا موقع نہ دے رہے ہوں پھر انکی شخصیحت کا ایک خاص رکھ رکھاو ہو تو ان کو جانچنے اور پرکھنے میں برسوں لگ جاتے ہیں نامور ادیب دانشور واجہ حکیم بلوچ ان محترم لوگوں میں سیتھے جن کوجاننے میں زمانے لگتے ہیں۔ ان سے تعلق ذاتی یا شخصی سطح پرکم رہا لیکن ان کی تحریریں پڑھنے کا شرف رہا موضوعات کا تنوع موضوع اورزبان و بیان کو بہت اولیت دیتے تھے ان سے تعلق میں جو چیز سب سے زیادہ اچھی لگی وہ ان کا بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کی تگ ودو ہے۔