جیونی شہر کی اہمیت اور پانی کا بحران

| وقتِ اشاعت :  


ضلع گوادر کا ساحلی شہر جیونی گوادر سے تقریبا ً75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایرانی سرحد سے جیونی کی مسافت صرف 34 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔جیونی زمانہ قدیم سے خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے جو خلیج فارس سے اور اس سے نقل و حمل کے راستوں سے متصل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کا بندوبستی علاقہ رہا ہے۔ جیونی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر برطانیہ کے زمانہ میں قائم ایئرپورٹ اب بھی موجود ہے۔



The Baloch Cultural Heritage’

| وقتِ اشاعت :  


 اس کتاب کے مصنف بلوچ دانشور، بلوچستان کی جانی پہچانی شخصیت، علمی و ادبی حلقوں میں معتبر و معروف نام، سابق بیوروکریٹ، صحافی، مصنف، شاعر، محقق، استاد، سابق چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ فخر مکران واجہ جان محمد دشتی ہیں۔ جان محمد دشتی کیچ مکران کے مردم خیز خطے دشت کنچتی میں پیدا ہوئے۔ زیرِ تبصرہ کتاب انگریزی میں ہے اور دیباچہ، تعارف سمیت پانچ ابواب اور اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ کتاب 259 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب کا تعارف بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے تحریر کیا ہے۔



’’خاران‘‘ ریاست سے ضلع تک کا سفر

| وقتِ اشاعت :  


ریاست خاران بلوچستان کے دیگر ریاستوں کی طرح ایک مستحکم اور مضبوط ریاست ہوا کرتی تھی۔ جہاں ریاستی ستون صحیح طریقے سے فنکشنل تھے۔ جن میں قاضی عدالتیں (عدلیہ) ،فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے فعال تھے۔ یہ خوشحال ریاست پانچ صدیوں سے زائد عرصے تک چلتی رہی۔ جب ریاست کو پاکستان سے الحاق کروایا گیا تو یہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح سکڑ کرایک ضلع میں تبدیل ہوگیا۔ تاہم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ضلع میں معاشی و سماجی مسائل نے جنم لینا شروع کیا جو ہنوز جاری ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خاران ایک سیاسی انتقام جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ انتظامی اور پسماندگی کی بنیاد کے بجائے سیاسی پسند ناپسند کی بنیادپر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ یہ انتقامی سیاست کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عام انتخابات میں حکمران جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے امیدوار عبدالکریم نوشیروانی کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے امیدوار ثناء بلوچ نے بری طرح شکست دے دی۔اس شکست کا بدلہ عوام سے لیا جارہا ہے، ان کے معاشی اور سماجی بہتری کے منصوبوں کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ضلع خاران بارانی ندی نالوں کا ایک مرکز ہے۔ ضلع کے منظور شدہ چار ڈیمز پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا جبکہ یہ چاروں ڈیمز پی ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔ چاروں ڈیمز کوہ راسکو، بڈو، چارکوہ سمیت دیگر مقامات پر بننے تھے۔ ان مقامات پر ڈیمز نہ ہونے سے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے۔ یہاں پہاڑی نالے ہیں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا۔ان منصوبوں کی تعمیر سے ضلع کی زمین کو سرسبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے معیشت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کی معیشت کا دارومدار اور انحصار زراعت اور مال مویشی پر ہے، زمینیں بنجر ہو چکی ہیں،کنوؤں میں پانی ناپید ہوچکا ہے۔



نیا انتفادہ

| وقتِ اشاعت :  


فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے نتیجے میں غزہ کی گنجان ساحلی پٹی پر درجنوں بم اور خودکار اسلحے سے مسلسل شیلنگ کی گئی ۔یہ دائیں بازو کے شدت پسند یہودیوں کی پولیس کی حمایت میں مسجد اقصیٰ میں داخلے کا ردعمل تھا۔سینکڑوں فلسطینی اس دوران شہید ہوئے، جن میں 70بچے بھی شامل ہیں۔ ان کے گھروں کا ملبہ ان کی قبر بن گیا۔ اب تک دس اسرائیلیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔الجزیزہ، ایسوسی ایٹ پریس اور دیگر میڈیا تنظیموں کی دفاتر پر مشتمل بلند و بالا عمارت اسرائیلی حملے میں ڈھے گئی۔ یہ عمارت ‘Reporters without Borders’ کا بھی مرکز تھی، جس کے جنرل سیکریٹری Christophe Deloireنے اسے ایک جنگی جرم قرار دیا۔البتہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس حملے کو جائزٹھہرانے پر مصر ہیں ، کیوں کہ اس عمارت میں مبینہ طور پر حماس کا دفتر تھا۔



کل کا انتظار نہ کیجیے

| وقتِ اشاعت :  


ایسے طلبا کثیر تعداد میں ہیں جو کہتے ہیں کہ جب اگلی کلاس میں جائیں گے تو پھر محنت کریں گے لیکن جب وہ اگلی کلاس میں جاتے ہیں تو پھر یہی کہتے ہیں کہ اگلی کلاس میں جاکر پھر محنت کریں گے۔ اسی طرح بڑی عمر کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جلد نماز پڑھنا شروع کریں گے، لیکن اْن کی نمازیں شروع نہیں ہوتیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نیک ہوجائیں گے، لیکن وقت گزرتا رہتاہے اور وہ نیکیاں نہیں کما پاتے۔ ہم زندگی میں بیشمار مرتبہ پلان کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے، لیکن نہیں کرتے۔ جب وقت گزرتاہے تو پھر پچھتاوا رہ جاتا ہے۔



!اسرائیل،فلسطین اور امت مسلمہ۔۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 27 رمضان المبارک کو عید سے چند روز قبل نماز تراویح کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر دھاوا بول دیا۔مسجد کی بے حرمتی کی،نمازیوں پر وحشیانہ تشدد کیا،فلسطینی بچوں،عورتوں اور نوجوانوں پر ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ کی۔اس دوران متعدد فلسطینی زخمی اور درجنوں گرفتار ہوئے۔اس بربریت کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے پچھلے دس روز سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا تھاجس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں،دکانوں اور کاروباری مراکز پر قبضہ کرنا ہے۔دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک معاہدے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنے ہے۔آج اکیسویں صدی میں اس علاقے کے مجبور لوگ یہودیوں کے مظالم تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔



غزہ ایک بار پھر صیہونی دہشت گردی کی زد میں

| وقتِ اشاعت :  


دہشت گرد صیہونی اسرائیلی ریاست کی جانب سے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے دو سو سے زائد فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں پچاس سے زیادہ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے حماس کی قیادت کو نشانے بنانے کی آڑ میں کئی رہائشی عمارتوں پر بمباری کر کے انہیں زمین بوس کردیا جس سے ہلاکتوں کی موجودہ تعداد کہیں زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ کاروائیاں اتنی جلدی ختم نہیں ہوں گی اور ’اسلامی جہاد‘ اور حماس کو اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہوگی۔ بظاہر حالیہ بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب 2مئی کو مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں آباد چھ فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی حکام کی طرف سے اپنے گھروں کو خالی کرنے کے احکامات دیئے گئے جبکہ 28 دیگر خاندانوں کو اسرائیلی عدالت سے بے دخلی کے احکامات 9 مئی کو ملنے والے تھے۔ شیخ جراح اور دیگر عرب اکثریتی علاقوں میں بے دخلی کے شکار فلسطینی خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ پولیس، فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی آباد کاروں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو غزہ کی پٹی سے حماس نے بھی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ کے ردعمل میں قریبی اسرائیلی شہروں پر راکٹ داغنے شروع کیے جس کے جواب میں غزہ کے محکوم فلسطینیوں پر صیہونی ریاست نے اندھا دھند بمباری کا سلسلہ شروع کیا۔ بنیامین نیتن یاہو کی موجودہ بحران زدہ حکومت (جس کے فارغ ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں) کی حالیہ کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم کلازوٹز کے اس آزمودہ فارمولے پر چل رہے ہوں کہ اندرونی بحرانات کو ٹالنے کے لیے بیرونی جنگ شروع کی جائے۔



پانچ گمشدہ قبروں کا قصہ

| وقتِ اشاعت :  


پنجگور کا لفظی معنی پنج (پانچ) گور (قبر) یعنی پانچ قبریں ہے۔اس کانام پنجگور اس طرح پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ مقبرے اصحابہ کرام کی ہیں۔ تاہم مورخ ان پانچ صحابہ کرام کے نام بتانے سے قاصر ہیں اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے ان پانچ گمشدہ قبروں کو دریافت کیا۔ یہ قبریں کہاں واقع ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ایک معمہ بن چکی ہے۔جس طرح آج پنجگور کی تاریخی قبریں لاپتہ ہیں۔ اس طرح ان کی آدھی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے ذریعے لاپتہ کردیاگیا۔ پنجگور کی آبادی کو کم دکھایاگیا جبکہ ان کی آبادی کئی گنازیادہ ہے۔ ضلع پنجگور میں دو صوبائی نشستیں ہوا کرتی تھیں، ان کو کم کرکے ایک نشست کردی گئی جبکہ دوسری صوبائی نشست کو ضلع آواران میں ڈال دیاگیا جس کی وجہ سے پنجگور ضلع انتظامی اور مالی طور پر کمزوراور غیرمستحکم ہوگیا۔ اس اقدام سے ترقیاتی فنڈز میں کمی آگئی جس کے باعث پسماندہ ضلع مزید پسماندگی سے دوچار ہوگیا۔ سڑک، تعلیم، صحت، بجلی، پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے ایک سونامی کی شکل اختیار کرلی ہے، تمام تر بنیادی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔



سرکاری جامعات میں انتظامی و مالی مشکلات

| وقتِ اشاعت :  


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جامعات معاشرے کی تعلیمی ،تحقیقی، سماجی معاشرتی، جمہوری ترقی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور عملی زندگی کیلئے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ہر شعبہ زندگی کیلئے بہترین لیڈر شپ مہیا کرتی ہیں یہ سب تب ہی ممکن ہے جب جامعات مکمل طور پر خودمختار اور خود کفی ل ھو اور ان میں تعلیم وتحقیق کی ترقی کیلئے فیصلے ومنصوبہ بندی آزادانہ وجمہوری انداز سے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہو،ا سی مقصد کیلئے منتخب اسمبلیوں یعنی صوبائی وقومی اسمبلی سے ان کو چلانے کے لئے ایکٹس پاس کی جاتی ہیں تاکہ جامعات کے پالیسی سازاداروں یعنی سینٹ ،سینڈیکیٹ ،اکیڈمک کونسل، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی ، بورڈ فار ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ اور سلیکشن بورڈ میں اساتذہ ،طلباء وطالبات ممبران ،صوبائی اسمبلی وسول سوسائٹی خصوصاً عدالت عالیہ و پبلک سروس کمیشن کی منتخب نمائندگی ہوتا۔