’’کوہلو‘‘ مزاحمت کا سرچشمہ

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں مری ایجنسی کے علاقے کوہ جاندران اور ماڑتل کے مقام پر گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ بتا یا جا رہا ہے کہ گیس کا یہ ذخیرہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہونے والے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے۔ دونوں مقامات سے نکلنے والی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پاکستان کو ایران اور ترکمانستان سے گیس خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلوچستان کے ذخائر پاکستان کی ضروریات آئندہ 50 سالوں تک پوری کرسکیں گے۔



مضبوط معیشت کیلئے زرعی ترقی ناگزیر

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کی وفاق کی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے حال ہی میں معاشی اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں جی۔ڈی۔پی کی شرح کو تقریباً چار فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔پچھلے سال جی ڈی پی کی شرح منفی 0.4 فیصد تھی جو اکیس کروڑ 24 لاکھ 80 ہزار آبادی والے ملک کے لیے انتہائی کم تھی۔تازہ اعداد و شمار میں جی۔ڈی۔پی کی اس شرح کو لے کر کئی معاشی ادارے حیران ہیں۔عالمی بینک کی طرف سے جاری کردہ گلوبل اکانومی رپورٹ2021 میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو محض نصف فیصد رہ سکتی ہے جب کہ خود حکو مت نے رواں سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف2.1 فیصد مقرر کیا تھا۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال میں اہم فصلوں کی شرح نمو 4.65 فیصد رہی اور یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گندم،چاول اور مکئی کی تاریخی پیداوار ہوئی ہے۔کسی بھی ملک کی معیشت اسکے موجود وسائل پر منحصر ہوتی ہے۔پاکستان کی معیشت میں زراعت کا بڑا عمل دخل ہے۔



 5 جون تحفظ ماحول کا عالمی دن

| وقتِ اشاعت :  


آج دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے، اس سال عالمی یوم ماحولیات کی تھیم”قدرتی ماحول کی بحالی“ رکھی گئی ہے۔ عالمی سطح پر حکومت پاکستان کی جانب سے قدرتی ماحول کی بحالی کے لیے شروع کردہ دس بلین ٹری منصوبے کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آج کے اس عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کررہاہے،جس سلسلے میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے۔



عالمی یوم ماحولیات

| وقتِ اشاعت :  


عالمی یوم ماحولیات جو ہر سال 5جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے سے قبل ماحولیات کے ماہر عالمی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درج حرارت محض دو درجہ سینٹی گریڈ بھی ہوا تو برف کی چٹانوں کا صفایا ہوجائے گا۔ ان چٹانوں پر بڑی تعداد میں سمندری مخلوقات کا انحصار ہے جو غذائی زنجیر یا فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس عمل سے سمندروں کی سطح 8فٹ تک بلند ہونے کا خدشہ ہے جس دنیا کے درجنوں سالی شہر سمند برد ہو جائیں گئے جس کے نتیجے میں ان شہوروں کے مکینوں اپنی زندگی بچانے کے لیے نقل مقانی کرنی پڑئے گی جو کہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہوگا اس تباہی سے بچنے کے لیے دنیا بھر اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کو متبادل انرجی نظام سمیت زمینی درجہ حضرات کم کرنے والے ترقیاتی منصوبے بنانے ہونگے، ہماری آج کی رپورٹ میں SDGs کے ماحول سے متعلق گولز 13.14.15کے ٹارگٹس تک پہنچنے بلوچستان میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جارہا ہے،



’’ریاست قلات‘‘ ماضی، حال اور مستقبل

| وقتِ اشاعت :  


ریاست قلات کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال سے زائدعرصے پرمحیط ہے۔خان آف قلات نے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی بلوچ ریاستوں کو ایک ’’ بلوچ کنفیڈریشن‘‘ کا ڈھانچہ دیا۔ قلات خانیت قلات کا دارالحکومت تھا۔ تاریخی طور پرقلات کوقیقان کہا جاتا تھا۔



جیونی شہر کی اہمیت اور پانی کا بحران

| وقتِ اشاعت :  


ضلع گوادر کا ساحلی شہر جیونی گوادر سے تقریبا ً75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایرانی سرحد سے جیونی کی مسافت صرف 34 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔جیونی زمانہ قدیم سے خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے جو خلیج فارس سے اور اس سے نقل و حمل کے راستوں سے متصل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کا بندوبستی علاقہ رہا ہے۔ جیونی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر برطانیہ کے زمانہ میں قائم ایئرپورٹ اب بھی موجود ہے۔



The Baloch Cultural Heritage’

| وقتِ اشاعت :  


 اس کتاب کے مصنف بلوچ دانشور، بلوچستان کی جانی پہچانی شخصیت، علمی و ادبی حلقوں میں معتبر و معروف نام، سابق بیوروکریٹ، صحافی، مصنف، شاعر، محقق، استاد، سابق چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ فخر مکران واجہ جان محمد دشتی ہیں۔ جان محمد دشتی کیچ مکران کے مردم خیز خطے دشت کنچتی میں پیدا ہوئے۔ زیرِ تبصرہ کتاب انگریزی میں ہے اور دیباچہ، تعارف سمیت پانچ ابواب اور اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ کتاب 259 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب کا تعارف بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے تحریر کیا ہے۔



’’خاران‘‘ ریاست سے ضلع تک کا سفر

| وقتِ اشاعت :  


ریاست خاران بلوچستان کے دیگر ریاستوں کی طرح ایک مستحکم اور مضبوط ریاست ہوا کرتی تھی۔ جہاں ریاستی ستون صحیح طریقے سے فنکشنل تھے۔ جن میں قاضی عدالتیں (عدلیہ) ،فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے فعال تھے۔ یہ خوشحال ریاست پانچ صدیوں سے زائد عرصے تک چلتی رہی۔ جب ریاست کو پاکستان سے الحاق کروایا گیا تو یہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح سکڑ کرایک ضلع میں تبدیل ہوگیا۔ تاہم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ضلع میں معاشی و سماجی مسائل نے جنم لینا شروع کیا جو ہنوز جاری ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خاران ایک سیاسی انتقام جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ انتظامی اور پسماندگی کی بنیاد کے بجائے سیاسی پسند ناپسند کی بنیادپر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ یہ انتقامی سیاست کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عام انتخابات میں حکمران جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے امیدوار عبدالکریم نوشیروانی کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے امیدوار ثناء بلوچ نے بری طرح شکست دے دی۔اس شکست کا بدلہ عوام سے لیا جارہا ہے، ان کے معاشی اور سماجی بہتری کے منصوبوں کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ضلع خاران بارانی ندی نالوں کا ایک مرکز ہے۔ ضلع کے منظور شدہ چار ڈیمز پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا جبکہ یہ چاروں ڈیمز پی ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔ چاروں ڈیمز کوہ راسکو، بڈو، چارکوہ سمیت دیگر مقامات پر بننے تھے۔ ان مقامات پر ڈیمز نہ ہونے سے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے۔ یہاں پہاڑی نالے ہیں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا۔ان منصوبوں کی تعمیر سے ضلع کی زمین کو سرسبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے معیشت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کی معیشت کا دارومدار اور انحصار زراعت اور مال مویشی پر ہے، زمینیں بنجر ہو چکی ہیں،کنوؤں میں پانی ناپید ہوچکا ہے۔



نیا انتفادہ

| وقتِ اشاعت :  


فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے نتیجے میں غزہ کی گنجان ساحلی پٹی پر درجنوں بم اور خودکار اسلحے سے مسلسل شیلنگ کی گئی ۔یہ دائیں بازو کے شدت پسند یہودیوں کی پولیس کی حمایت میں مسجد اقصیٰ میں داخلے کا ردعمل تھا۔سینکڑوں فلسطینی اس دوران شہید ہوئے، جن میں 70بچے بھی شامل ہیں۔ ان کے گھروں کا ملبہ ان کی قبر بن گیا۔ اب تک دس اسرائیلیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔الجزیزہ، ایسوسی ایٹ پریس اور دیگر میڈیا تنظیموں کی دفاتر پر مشتمل بلند و بالا عمارت اسرائیلی حملے میں ڈھے گئی۔ یہ عمارت ‘Reporters without Borders’ کا بھی مرکز تھی، جس کے جنرل سیکریٹری Christophe Deloireنے اسے ایک جنگی جرم قرار دیا۔البتہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس حملے کو جائزٹھہرانے پر مصر ہیں ، کیوں کہ اس عمارت میں مبینہ طور پر حماس کا دفتر تھا۔