ملک ریاض اور ڈیلنگ کا فن (1)

| وقتِ اشاعت :  


بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین پر برسوں سے آباد لوگوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔2019ء کے اواخر میں اسلام آباد میں جاری کابینہ اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ”(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، ‘جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے”۔



جام کمال خان کی واپسی،پی ڈی ایم تحریک سے مشروط

| وقتِ اشاعت :  


سال2013کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت سازی کیلئے رابطے شروع کیے اور مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے ایک وزرات کے عیوض نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کا اعلان کیا اور جمعیت علماء اسلام سے بھی رابطے جاری تھے کہ اچانک نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء عبدالرحیم زیارتوال بھی نواب ثناء اللہ زہری کے پاس پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بننے کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے خود کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم حاصل خان بزنجو اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اسلام آباد میں بیٹھے میاں نواز شریف کو منانے میں مصروف تھے انھیں حکومت سازی کی اطلاع ملی درحقیقت وہ بھی اس کھیل میں شامل تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا کہ بلوچستان کو ایک مری معاہدے کی ضرورت ہے اور معاہدہ کرکے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر کیا گیا جبکہ محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان تعینات ہوئے، اڑھائی سال کے دوران مسلم لیگی رہنماؤں کی اپنے اتحادیوں (نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی) سے سرد جنگ جاری رہی جبکہ مسلم لیگ (ق) اپنی ایک وزرات لیکر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی، اڑھائی سال بعد مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو و ہی خاموش اتحادی نواب ثناء اللہ زہری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے کیونکہ میر عبدالقدوس بزنجو بضد تھے کہ انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے جس سے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری انکار کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ جعفر مندوخیل سے وزارت لیکر ہی انھیں دیا جاسکتا ہے اس دوران حکومت کے اہم اتحادی نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔



جام کمال صاحب ۔۔۔اپنوں کی بے وفائی کا انتظار کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


لگتا ہے اس بار جام صاحب کے سر سے بڑوں نے اپنی دست شفقت اٹھا لی ہے ،ویسے بھی باپ پارٹی میںاندرونی طور پر اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں بقول باپ پارٹی کے اہم ذمہ دار اور پارٹی میں ایک عہدے پر فائز میرے ساتھ ایک ساتھ نجی محفل میں اعتراف کرلیا تھا کہ جام اور بزنجو کی اختلافات آخری تک گئے ہیں۔میرے استفسار پر انہوں نے کہا کہ ذاتی وجوہات اور عدم برداشت کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے ۔جام صاحب یہ سب کچھ دانستہ طور پر کررہے ہیں کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔اس وقت ملازمین طبقہ جام صاحب کی کارکردگی سے نالاں۔ملازمین نے ایک طویل دھرنا دیا لیکن انہیں 25 فیصد الائونس نہیں ملا۔ روزگار پر غیر اعلانیہ طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے صرف ایک چیز میں جام صاحب کو دلچسپی ہے وہ ہے کورونا۔ بقول ان کے ایک سابق ایڈوائزر کے کورونا کی مد میں بڑی رقم ایمرجنسی کے طورپررکھی گئی ہے جتنا مرضی ادھر ادھر کرو، کوئی پوچھنے والا نہیں اسی لئے جام کمال اپنا کمال ایسی چیزوں پہ دکھا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کا خاص رول نہیں ہوگا کیونکہ ان کا موقف سینٹ انتخابات کے وقت واضح ہوچکا ہے، باپ پارٹی کے منحرف ارکان اگر بھوتانی کی قیادت میں اکٹھے ہوئے تو جام صاحب کوجانے سے کوئی طاقت نہیں روسکتی۔لیکن اپوزیشن کا اس معاملے میں بڑا رول ہوگا ایسا سمجھو اپوزیشن کے بغیر تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس واضح عددی اکثریت موجود ہے ڈھائی سالہ اقتدار میں موجودہ حکومت کی خاطر خواہ کارکردگی نہیں رہی ہے عمران خان اور جام کمال ایک سوچ کے مالک ہیں یہ یہی سمجھتے ہونگے کہ اقتدار ہمیشہ رہیگا اسی لئے ان میں ایک گھمنڈ نظرآتا ہے ، بھوتانیسب کیلئے قابل قبول ہوگا۔



سی پیک کے شہر گوادر کے دیہی علاقہ کلانچ میں بحران آب

| وقتِ اشاعت :  


پسنی سے کلانچ جاتے ہوئے کچی اور دشوار گزار سڑکوں پر چلتے ہوئے اتنا احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا خیال سیاسی پارٹیوں کو ہر پانچ سال بعد اس وقت یاد آتی ہے جب وہ انتخابی مہم کے لئے انکے پاس ووٹ مانگنے جاتے ہیں، ایسا بھی پہلی بار 2018 کے الیکشن میں ہوا تھا جب الیکشن لڑنے والے امیدوار خود ووٹ مانگنے کلانچ کے دور افتادہ گاؤں میں گئے تھے،کیونکہ اس سے پہلے کوئی انتخابی امیدوار کلانچ ووٹ مانگنے نہیں جاتا تھا۔کلانچ میں دو درجن سے زیادہ گاؤں اور دیہات آباد ہیں، کلانچ کے مختلف دیہاتوں کی آدھی آبادی تو پہلے ہی سے کلانچ کو الوادع کہہ کر پسنی اور گوادر میں مستقل طور پر منتقل ہوچکی ہے۔ اس وقت کلانچ میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں، وہ یا تو غربت کے آگے بے بس ہوکر کسی قریبی شہر منتقل نہیں ہوسکتے اور کچھ کو کلانچ کے سرزمین کی مٹی وہاں رہنے پر مجبور کررہی ہے۔کیونکہ وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کلانچ میں لہلاتی فصلوں پر ایک بار پھر بلبل سریلے گیت گائیں گے، اور فاختائوں کی کوکو کی آواز پھر گونجے گی۔



ناممکن نہیں کچھ بھی

| وقتِ اشاعت :  


ایف ایس سی کا زمانہ تھا… انتہائی دباؤ کی فضا… نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے… انٹری ٹیسٹ دیا……ناکام رہی… وہ ناکامی اتنی بری تھی کہ … تب کوئی بھی دیکھتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو یہ تو ہے ہی فیل… کچھ نہیں کر سکتی زندگی میں… ڈپریشن کے لیے یہ کافی تھا…. ہر کسی سے الجھنا اب معمول تھا… اماں ابا تو دشمن لگتے تھے کہ یہی ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے



بحریہ ٹاؤن اور مستقبل کاکراچی

| وقتِ اشاعت :  


اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت آئے روز فلسطین کے علاقوں پرچڑھائی کی جاتی ہے تو وہاں کے محکوم اور مظلوم عوام احتجاج کرنے پہنچ جاتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ہم یہی چیزیں پاکستان جیسے آزاد ملک کراچی کے تہذیب یافتہ شہرمیں دیکھ رہے ہیں۔ گڈاپ کاٹھوڑ کے علاقے میں بحریہ ٹاؤن کے اہلکارپولیس کے ہمراہ داخل ہوتے ہیں اور نورمحمد گبول گوٹھ،عبداللہ گبول گوٹھ سمیت چھ دیہات پر بلڈوزر چڑھادیتے ہیں ۔ مقامی لوگ حسب روایت احتجاج کرتے ہیںجس طرح صیہونی جارحیت کے سامنے نہتے فلسطینی مزاحمت کار صدابلند کررہے ہوتے ہیں۔



کیا مزدور ڈے کا یہی مطلب ہے ؟

| وقتِ اشاعت :  


یکم مئی کو مزدور ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں مزدوروں سے اظہار یک جہتی کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ جلوس نکالے جاتے ہیں۔ تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر جگہ میڈیا سے لیکر عوام تک مزدور مزدور کے نعرے لگتے ہیں۔ بڑے بڑے اعلانات کیئے جاتے ہیں ، ہم مزدوروں کو حق دلائیں گے ، ہم مزدوروں کو یہ دیں گے وہ دیں گے لیکن مقصد ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب حق دلانے کا وقت آتا ہے کہا جاتا ہے ’’ کون سا حق آپ لوگ اتنا لوٹ رہے ہیں ملک سے کبھی احساس کیا، بلڈنگ مکانات بنانے کے ٹھیکے آپ کے پاس ، فیکٹریوں پر آپ کا قبضہ ، یہ بتائیں کہ آپ نے کہاں قبضہ نہیں کیا پھر بھی کہتے ہو کہ ہمیں ہمارا حق دو جاؤ ہماری جان چھوڑو ‘‘۔



کورونا وائرس کی تیسری لہر

| وقتِ اشاعت :  


کورونا کی تیسری لہر پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اِس لہر نے یورپ اورہمارے پڑوسی بھارت کو کچھ عرصے قبل اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ اس وبا کے خلاف پاکستان کی اب تک کی کارکردگی تواطمینان بخش تھی، لیکن اب کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد روایتی طور طریقوں اور ’’ایس اوپیز‘‘ پر عمل درآمد کی اپیلوں سے نہیں رُکے گی۔ ایک نیا لاک ڈائون امکان ہے، جو غریب عوام اور معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ ہم معیشت بچانے کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ صورت حال کے بگاڑ کی ایک وجہ گزشتہ ایک برس سے نافذ لاک ڈائون سے متعلق عوام کو لاحق پریشانی بھی ہے۔



’’زر‘‘ کی تلاش

| وقتِ اشاعت :  


کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ چراگاہوں پرقبضہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب ساحلی پٹی پرماحول دشمن منصوبے کے قیام کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ماہی گیری کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ضلع ملیر سے لیکر ضلع کیماڑی تک ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف انڈیجینس لوگوں پر ڈھائے جانے والی زیادتی اور ظلم کے خلاف نام نہاد قومی میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے تو دوسری جانب سندھ حکومت اور وفاقی ادارے بلڈرمافیاز اور ملکی وغیر ملکی کمپنیوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔



بحریہ ٹائون کی عفریت اور بلوچ مزاحمت

| وقتِ اشاعت :  


بلوچ آبادی کے اعتبار سے سب سے زیادہ کراچی اور گردنواح میں آباد ہیں کہا جاسکتا ہے کہ کراچی بلوچوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بلوچ بنیادی طور پر بندرعباس سے لیکر انڈس ریور تک اس خطے کا وارث اور مالک ہے مگر گزشتہ کئی دھائیوں سے بلوچ کی سرزمین اور بلوچ کے ساحل اور وسائل پر بالادست قوتوں کا قبضہ ہے۔ بلوچ اپنی سرزمین پر غلاموں کی زندگی گْزارنے پر مجبور ہیں بلوچ کی نااتفاقی انتشار آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا اور بے علمی بلوچ کی بدحالی اور غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بلوچ اپنی قومی بقا و تشخص اور اپنی سرزمین کی دفاع میں مزاحمت بھی کرتا ہے مگر اپنی مزاحمت اور قومی جدوجہد کو اس جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا ۔