|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2021

24 اپریل 2021 کی ایک اخباری خبر کے مطابق جمعہ کے روز بلو چستان اسمبلی اجلاس میں نصراللہ زیرے نے وزیر تعلیم کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاکہ سابقہ دور حکومت میں مادری زبانوں بلوچی، براہوئی، پشتو، سندھی اور فارسی اور دیگر کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کی بابت با قا عدہ طور پر اسمبلی میں قانون پاس ہوا تھا اور اس بارے سکولوں میں پرا ئمری کی سطح تک پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا مگر اب شنید میں آیا ہے کہ حکومت مادری زبا نوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم کر رہی ہے لہذا اس بارے تفصیل فرا ہم کی جائے۔اس پر صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے مادری زبانوں کی تعلیم کا سلسلہ بند کر نے سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا البتہ قومی اسمبلی میں یکساں نصاب لانے کی قرارداد منظور ہوئی ہے اگر وہاں سے قانون منظورہو گیا تو صوبہ اسکے بر عکس قانون پاس نہیں کر سکتا۔ میری خواہش ہے کہ مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم دی جائے تاکہ چھو ٹی زبانیں زندہ رہیں۔انکی خواہش پر اس توجہ دلاؤ نو ٹس کے جواب کو آ ئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس دوران مر کز اور صوبے سے معلومات اکٹھی کر کے ایوان کو فراہم کی جا سکیں۔کیا مرکز تعلیم کے شعبے اور خاص کر مادری زبان کی تعلیم کے حوالے سے صوبوں میں مدا خلت کا حق رکھتی ہے کہ نہیں،آ ئین کا جا ئزہ لینا ضروری ہے۔1973 کے آ ئین کے آر ٹیکل 251 سب سیکشن 3 کہتا ہے،
” With out prejudices to National language a Provincial Assembly may by law priscribe measures for the teaching promotion and use of a Provincial language in addition for the National language.“ تر جمعہ: ”قومی زبان کے مرتبہ سے بد گمانی پیدا کئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی کو قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ قومی زبان کے ساتھ ساتھ پڑھانے اور اسکی ترقی کے لیئے اقدامات تجویز کرے۔“ اسی آر ٹیکل کی رو سے سندھ میں سندھی زبان کو تعلیمی شعبہ کے علاوہ ہر میدان میں اسکا جا ئز مقام ملا ہوا ہے۔ جب آئین بنا اس وقت بلو چستان میں نیشنل عوامی پارٹی(NAP) اور جمعیت علماء اسلام (JUI)کی حکومت تھی۔سردار عطااللہ مینگل وزیر اعلیٰ تھے۔نیپ کی لیڈرشپ نے بلوچی کی بجا ئے اردو کوصوبائی زبان قرار دیا۔اس اقدام سے انکی مجبوری کا پتہ ابتک نہ چل سکاحالانکہ ایک ابتدا ہو سکتی تھی۔شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی جب وزیر اعلیٰ بنے انہوں نے مادری زبانوں میں تعلیم کی ایک مخلصانہ کو شش کی ابتدا کی۔بلوچی برا ہوئی اور پشتو میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔بلوچی زبان کے املا کا فیصلہ ہوا،کتا بیں چھپ گئیں اور ٹیچرز کی ٹریننگ مکمل ہوئی۔تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔اسی دوران اسمبلیاں تحلیل ہوئیں،پھر نئے الیکشن ہوئے۔نواب صاحب کی پارٹی JWP صوبے میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، لیکن مرکز نے مدا خلت کر کے تاج محمد جمالی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ما دری زبانوں میں تعلیم کا پرو گرام دھرے کا دھرا رہا۔اس کھیل میں بلوچ پشتون قوم پرستوں نے بھی تاج جمالی کا ساتھ دیا۔اس کے علاوہ بلوچ پشتون ادیبوں،دانشوروں،سیاسی پارٹیوں،طلبا تنظیموں،ادبی اکیڈمیوں سمیت کسی نے بھی اس پروگرام کو ترک کرنے پرذرابرابر احتجاج نہ کیا اور چپ ساد ھ لی۔محترمہ بے نظیربھٹوکی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی اور آصف علی زرداری صدر بنے۔دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر اٹھارویں تر میم کی منظوری دی جس کے تحت تعلیم کے شعبہ میں نصاب (Curriculum)، سلیبس(Syllabus)، پلاننگ(Planning)، حکمت عملی(Policy)، سنٹرز آف ایکسی لنس(Centres of excillence)اور تعلیمی معیار(Standards) کی ذمہ داریاں صوبوں کو دی گئیں۔اب آ ئین میں تبدیلی کئے بغیر تعلیم کے شعبہ میں مر کز مدا خلت نہیں کر سکتی، یہ اور بات ہے کوئی صوبہ اپنے اختیارات سے خود دست بردار ہو جائے اور مرکز سے اسکی درخواست کرے۔ ہمارے محترم وزیر تعلیم مطمئن رہیں اب مر کز کوئی قانون پاس نہیں کر سکتی۔اس ضمن میں گزشتہ حکومت نے بلوچی،براہوئی اور پشتو کے علاوہ سندھی اور فارسی کو بھی تعلیمی زبان قرار دیا۔کہاوت ہے چوہا خود اپنے بل میں مشکل سے گھستا ہے اوپر سے اس نے ایک چھج بھی دم سے باندھ لی، یعنی نا ممکن بنانے والی بات۔ایک باربرطانوی وزیر تعلیم پاکستان آئے انہیں ایک گرائمر سکول کا معائنہ کرایا گیا۔معا ئنہ کے بعد ان سے تاثرات پو چھے گئے۔ اس نے کہا اگر میں واپس جاکرحکومت کو تجویز دوں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم انگریزی کی بجائے ایک غیر ملکی زبان میں دی جائے تو یقیناً میرا نفسیاتی معائنہ کرانے کی تجویز دی جائیگی۔ایسی مثالوں کے باوجود ہم ماضی کے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں۔WHO کا ذیلی ادارہ برائے تعلیم و ثقافت یونسکو کہتی ہے، ”مادری زبان میں تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے۔یعنی اس زبان سے تعلیم کی ابتدا ہوجو وہ جا نتے ہیں۔اس سے نہ صرف سکول چھوڑنے drop-out)) کی شرح کم ہوتی ہے بلکہ وہ بچے جو سکول سے باہر ہیں انہیں سکول تک لانے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔مادری زبان میں تعلیم پانے والے بچوں میں عمیق سوچ اور عمل کر نے کی صلا حیت بہ نسبت ان بچوں کے جنکی ابتدائی تعلیم کسی اور زبان میں ہوئی ہے سے بہتر ہے“۔سکول میں تعلیمی زبا نیں ایک زینے کی ما نند ہیں۔ابتدا مادری زبان میں چند سال بعد قومی زبان اردو اس کے بعد انگریزی۔