|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2024

لاہور: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور بار ایسوسی ایشن کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں وابسطہ ہیں ،1956ء میں یہاں اس لان میں عبدالغفار خان اور میرے والد خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی جسٹس شبیر احمد عثمانی کی عدالت میں پیش ہوئے دونوں کو عدالت کے ختم ہونے تک قید میں رکھا اور پھر 9ہزار اور 12ہزار جرمانہ رکھ کر رہا کیا گیا ۔

PLD میں ان کی تقاریر ہیں پڑھنے کے بھی ہیں اور دیکھنے کے بھی ہیں کہ مارشلائوں کے ساتھ غیر آئینی وغیر جمہوری حکومتوں کے ساتھ ہمارا واسطہ بہتطویل ہے ، جنرل ایوب خان کی مارشلاء دور کا تمام عرصہ ہمارے اکابرین جیل میں تھے ، عبدالصمد خا ن اچکزئی وہ واحد آدمی تھا جس نے ایوب خان کا سارا دور مارشل لاء قید میں گزاری اور پھر نہ کسی سے اپیل کی درخواست دی تھوڑے امتحانات وغیر دیکر 14میں سے چار سال ان کو معافی دی گئی خدا بخشے محمد علی قصوری کو وہ ان کے وکیل تھے ۔

میرے بڑے بھائی محمد خان جو ہمارے گورنر تھے وہ یہاں پڑھ رہے تھے جب وہ یہاں سے جارہے تھے کوئٹہ تو وہ کہہ رہے ہیں محمود علی قصوری نے مجھے سمجھایا کہ اپنے باپ کو سمجھائو ۔ یہ عادی ہوگئے ہیں لوگوں کے خلاف بولنے کا یہ پھر بولے گا وہ لوگ پھر انہیں جیل لے آئینگے وہی ہوا۔ شریف آدمی کوئٹہ آیا لوگوں نے ان کا عظیم الشان استقبال کی ۔انہوں نے بنیادی انسانی حقوق، فیڈریشن آف پاکستان ، ون مین ون ووٹ کی بات کی پندرھویں دن واپس جیل میں ڈال دیا اور پھر 14سال قید کی سزاسنائی ۔ میں ان کی اولاد میں تیسرا بیٹا ہوں ایک بہن سمیت چوتھی اولاد ۔ میری پیدائش 1948میں ہوئی ، میں پانچ مہینے کا تھا وہ پھر سرکار کے مہمان بنے ۔

جب پہلی دفعہ میں نے انہیں دیکھا تو میری عمر سات سال تھی ایک بوڑھا آدمی گھر میں داخل ہوا مجھے بتایا گیا کہ بابا آئے ہیں میں سوچ رہاتھا بابا تھے کہاں اتنے عرصے پھر جب ان کی شہادت ہوئی میری عمر تقریباً پچیس سال تھی ان سے بحیثیت خاندان کے فرد کے قسطوں میں بمشکل ڈھائی سال کا عرصہ گزارا ہوگا۔ وہ ساری عمر جیلوں میں رہے اور شہید کردیئے گئے ۔

میں کسی پر احسان نہیں ڈال رہا اورتمام مشکلا ت کے ہوتے ہوئے ہم نے کبھی خدانخواستہ پاکستان مردہ بادکا نعرہ نہیں لگایا ۔

آج یہاں یہ ایک آدمی کو تھپڑ مارو تو وہ پاکستان کو گالیاں دیتا ہے ۔ ہم آئین کی بات کرتے ہیں یہاں انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو بس یہی بات ہوتی ہے تو غدار ۔

یہ غدار ہے یہ ملک کو نہیں مان رہا ہے ، لوگوں کے ساتھ نفرتیں پھیلاتے ہیں میں اپنی پوری ایمانداری سے بحیثیت ایک انسان بحیثیت ایک مسلمان ہم انسانوں سے فاصلے اس بنیاد پر ناپنے کو کفر سمجھتے ہیں کہ وہ کس نسل ، قوم ، مذہب یا کس زبان سے تعلق رکھتا ہے ۔ کس براعظم کا رہنے والا ہے اس کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔ انسان تو انسان ہے بُرے اور اچھے ہر جگہ ہوتے ہیں یہ قرآن کریم کا فلسفہ ہے ہم انسان ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے یہاں یہاں نہ کوئی کسی آقا ہے نہ کوئی کسی کا غلام ۔

پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی ، پنجابی اپنے اپنے وطنوں پر آباد ہیں نہ کوئی کسی کا لونی ہے ہے۔

یہ ملک پچھتر چھیتر سال تک اس حالت میں پہنچاہے کہ ہم سب نے اگر عقل کے ناخن نہ لیئے اور ہم اس بلا کے مقابلے میں اکھٹے نہ ہوئے تو خدانخواستہ یہ ہمارا ملک بڑے خطرناک حادثات کا شکار ہوگا ۔

ہمارے خطے کی طرف لوگوں کی نظریں ہیں ایک دفعہ پھر ہمارے خطے میں مست سانڈ اپنی جنگ لڑنا چاہتے ہیں ۔ ہم سب نے ملکر ملک کو کسی دو نمبر وزیر اعظم اور ایک پاگل جرنیل کے حوالے کردیا تو یہاں جنگیں آجائیں گی ہمیں واضح طور پر ملٹری سٹیبلشمنٹ کو ، اس حکومت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم دوسروں کی جنگیں کسی صورت میں اپنے خطے میں لانا نہیں چاہتے ۔ ہم بلوچ ، سندھی ، پٹھان قرآن کریم کے اوراق پر آپ کو لکھ کے دینگے اس ملک کو ایک جمہوری ملک بنائیں آئین کی بالادستی تسلیم کریں ۔ منتخب پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ بنائیں ۔

وہی سے داخلی وخارجی پالیسوں کی تشکیل ہو ، پشتون بلوچ سندھی سرائیکی کو آئینی گارنٹی دیں کہ آپ کی مادر وطن میں جو قدرت کی جو مخفی خزانے اور نعمتیں ہیں ان پر پہلا حق آپ کے بچوں کا تسلیم کیاجائیگا پھر قیامت تک پاکستان زندہ باد ۔لیکن ایک غیر جمہوری پاکستان ، ایک دونمبر کے لوگوں کی حکومت کا پاکستان اس کو زندہ باد کہنا خود گنا ہے یہ عجیب ملک ہے ہم آخر کرینگے کیا ۔

یہاں سچ بولنے پر پابندی ہے جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جھوٹے پرخدا کی لعنت ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سچ کیا ہے سچ یہ ہے کہ یہ الیکشن تحریک انصاف جیت چکی ہے یہ سچ ہے ہمارے اختلاف سہی لیکن عوام نے فیصلہ کیا عوام کی طاقت اللہ تعالیٰ کی طاقت ہوتی ہے اور یار لوگوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ فلاں وزیر اعظم ہوگا ، فلاں صدر ہوگا ، فلانا صوبہ فلانے کے پاس ہوگا فلانا صوبہ فلانے کے پاس ہوگا یہ کرینگے وہ کرینگے کسی کو کیا پتہ تھا کہ عوام کے ووٹوں کا جو سیلاب آئیگا اس نے وہ سارا ٹیبل الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا اور اب اس کو سنبھالا نہیں جارہا ۔ اس کا علاج صرف ایک ہے یہاں آئین کی بالادستی ہوگی ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں جب دوسری مرتبہ 1993میں جب منتخب ہوا گوہر ایوب صاحب سیٹ پر تھے تو میں نے حلف میں کہا تھا کہ گوہر ایوب صاحب یہ جو ہم لوگوں نے حلف لیا ہے کیا یہ محض ایک رسم ہے یا اس کر ہر لفظ گواہ ہے ۔ گوہر ایوب صاحب نے کہا آپ کہنا کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا کہ آپ نے ہم سے حلف لیا کہ ہم اس آئین کا تحفظ کرینگے میں نے کہا کہ اگر ایک سال بعد ایک سر پھرا جرنیل مارچ کرتا ہوا آئیگا آئین کو پائمال کریگا ہم کیا کرینگے۔؟ اگر واقعی آپ حلف لینا چاہتے ہیں تو ہم سے یہ حلف لیں کہ آج کے دن سے پاکستانی عوام آئین کا تحفظ کیلئے گلیوں میں نکلیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی سیٹ جاسکتی ہے میں نے کہا کہ بابا میں ان دوہاتھوں کے ساتھ آئین کی حفاظت نہیں کرسکتا باقی مرضی آپکی ۔ یہ ایک دستاویز ہے ،اس پر اعتراضات ہوسکتے ہیں ہم شاید اختیارات کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بلوچ، پشتون ، سرائیکی کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ لیکن اس دستاویز کو ہاتھ نہ لگائیں اسے نہ چھیڑیں اس آئین نے پاکستان کے لوگوں کو اکٹھا کررکھا ہے ۔

جب ہم آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ہم یہاں آپ سے سیکھنے آئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو بچانے کیلئے ایک کولیکٹیو ویزڈم کی ضرورت ہوتی ہے معاشرے کے تمام لوگ جو سیاست کو سمجھتے ہیں ہمیں مل کر اس ملک کو سہارا دینا ہوگا اور اس کا واحد علاج یہی ہے کہ یہاں پارلیمنٹ خودمختار ہو ، آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنی چاہیے ، ہمارے فوجی بھائی غلط کام بھی کرتے ہیں پھر ناراض بھی ہوتے ہیں ، سپاہی سے لیکر جرنیل تک یہ حلف لیتے ہیں کہ میں سیاست میں حصہ نہیں لونگا ۔ ہمارے ہر ادارے کا فریم ورک معلوم ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبے سے لیکر ہر ضلع تک سٹیبلشمنٹ کے لوگوں کو حوالے کرنا اور یہ بربادی ہے ہم اس کے مخالف ہیں اگر آپ کو شوق ہے سیاست میں آنے کا تو بسم اللہ ۔ یہ ووٹ مانگنا ووٹ لینا پھر لوگوں کو مطمئن کرنا کہ میں ووٹ لینے کا حق دار ہوں آپ آئیں وردی نکالیں پھر آپ کو پتہ چل جائیگا کہ سیاست کیا ہے ۔

آئیں سیاست کریں ۔ آپ وزیر اعظم بن جائیں ہمیں لیڈکریں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ 22گریڈ کے آفیسر ہونگے اور داخلی وخارجی پالیسیوں کے سرخیل ہونگے کم از کم محمود خان اچکزئی اور کوئی جمہوری پاکستانی آپ کے اس گناہ میں شریک نہیں ہونگے اور آپ کا راستہ جمہوری جدوجہد کے ذریعے روکیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمر ان خان جو کچھ تھا آج وہ پاکستان کی پارٹیوں میں سب سے زیادہ ووٹوں کا لیڈر ہے میں وکیل نہیں ہوں کچھ کاغذات ٹرمپ بھی لے گئے تھے لوگ چل پڑے تھے ۔ لیکن عمران خان کہاں بھاگ سکتا ہے وہ کہیں نہیں جائیگا کیسز اگر نہیں لیتے تو کم سے کم انہیں رہا کریں جس پیشی میں اُسے بلانا ہے وہ آئیگا وہی ۔ رہی بات اس کے گھروں والوں کی یہ بحیثیت انسان ، بحیثیت مسلمان یہ بہت بُری بات ہے کہ آپ لوگوں کے گھروں میں گھس جائیں کہ آپ کی نکاح یہ آپ کی نکاح وہ ۔ شرم کا مقام ہے اس عمل کو چھوڑدو ۔ عمران خان کی بیوی اگر اس کے ساتھ جیل میں رہنا چاہتی ہے جیل بھیجو ۔ گھر جانا چاہتی ہے گھر بھیج دو ۔ اب یہ تحریک ہم نے شروع کی ہے یہ اس لیئے نہیں کہ ہم جذباتی بن کر عمران خان کو نکالنا چاہتے ہیں بلکہ ہم پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں جس میں شفاف ، غیر جانبدارنہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *