پی ڈی ایم جس مقصد کیلئے بنایا گیا اور جس طرح شروع میں حکومت کے خلاف موثر تحریک کا آغاز ہوا عوام اور سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے آثار دیکھنے لگے تھے جب پی ڈی ایم نے گجرانوالہ کراچی کوئٹہ ملتان لاہور پشاور فیصل آباد و دیگر بڑے شہروں میں بڑے اور تاریخی اجتماعات کئے عوام کو یقین ہوگیا کہ اب کی بار ملک میں سیاسی اور جمہوری تبدیلی کا غالب امکان پیدا ہو جائے گا لیکن جب پی ڈی ایم نے سینٹ سے قبل استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان سے جہاں حکومت وقت لڑکھڑاتی ہوئی نظر آ رہی تھی وہیں پی ڈی ایم بھی اندورن خانہ ختلافات کا شکار ہونے لگی ۔
ایک زمانہ تھا کہ کہ علم کا اصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، نقل و حرکت کے محدود وسائل نے اسے غریب کے لیے مشکل تربنا دیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں علم کا حصول مرایات یافتہ طبقے کی دسترس تک محدود تھا۔ قلم کے ساتھ کتابوں کی طباعت کے باعث دنیا بھر میں محدود پیمانے پر کتابیں مارکیٹ تک پہنچتی تھیں اور علم کے حصول کے لیے طالب علموں کو سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔لہذا اہم تعلیمی مراکز ، یونیورسٹیز اور لائبریریز تک رسائی غریب کے لیے دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا تھا۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے قیام کے ساتھ ہی بہت سے افراد کی یہ رائے تھی کہ اب سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونگے اور یہ سسٹم اب گیا کہ تب گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں پی ڈی ایم کے استعفیٰ ایک آئینی بحران پیدا کردینگے لیکن اب سے چند روز قبل پیپلزپارٹی نے سی ای سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف ضمنی انتخاب لڑینگے بلکہ سینیٹ کے انتخابات میں بھی میدان خالی نہیں چھوڑینگے اور اگلے ہی روز پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی ایک نہ چلنے دی یہاں تک کہ ن لیگ بھی پیپلزپارٹی کی ہمنواء بن گئی تھی اب چونکہ سینیٹ انتخابات میں اترنے کا فیصلہ پی ڈی ایم کرچکی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار جس مقام پر واقع ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں “بلوچوں” کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ منفرد اور بلند مقام ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بلوچی زبان میں اسے “قیامہ سری” کہتے تھے۔ اور یہ زمین خدا داد خان گبول کی ملکیت تھی جب ریاست نے فیصلہ کیا کہ یہاں قائد اعظم کو سپرد خاک کیا جائے گا تو مقامی باشندوں نے اپنی زمین بانی پاکستان کی آخری آرام گاہ کے لئے پیش کردی اور یہاں کی آبادی کو وہاں منتقل کیا گیا جسے آج جہانگیر روڈ پٹیل پاڑہ کہا جاتا ہے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔
ایک مہینہ قبل کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں فورسز کے صوبائی سربراہوں، وزیروں، مشیروں اور لیڈروں کی ملاقاتیں ہوئیں، اجلاس ہوئے، خوردونوش کی دعوتیں اڑائی گئیں، بارڈر کے دورے کئے گئے اور اس سارے عمل کے بعد سرحدی عوام کو خوشخبری دی گئی کہ پاک ایران بارڈر کھل گئی ہے۔ اخباری لیڈروں (مرشدوں) نے اس اعلان کو اپنے اپنے من پسند پِیروں کی کاوشیں قرار دیکر مبارکبادوں اور تعریفوں کے انبار لگا دئیے اخبارات سے لیکر سوشل میڈیا تک تعریفوں کے پل باندھے گئے ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والوں اور اس سے منسلک لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب تبدیلی سرکار واقعی میں سرحدی عوام کو ریلیف دینے کیلئے۔
زیتون کا درخت نباتاتی، اقتصادی اور مذہبی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ نباتاتی لحاظ سے اس کی کاشت کوہستانی، بارانی اور آبپاش علاقوں میں بڑی کامیابی سے کی جاسکتی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے یہ ایک کثیر زرعی آمدنی کا آسان ذریعہ ہے۔ اس کے پھل سے انتہائی کارآمد تیل حاصل کیا جاتاہے۔ ایک کلو تیل کے لیے 4سے 6کلو زیتون درکار ہوتی ہے جو کہ تجارتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ زیتون کی کامیاب کاشت کے لیے ایسی آب و ہوا کی ضرورت ہے جہاں گرمیوں کا موسم متعدل ، گرم اور خشک ہو اور سردی کے موسم میں بارشیں ہوں۔
جنوری کا آغاز بلوچستان اور کوئٹہ کیلئے ایک ایسی خبر لے کر آیا جسکے نتیجے میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بلوچستان کو ایک بار پھر جگہ ملی اور ماضی کی طرح اس بار بھی ایک سانحے کے نتیجے میں بلوچستان کو ہیڈ لائینز میں جگہ ملی۔ چاہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہویا سوشل میڈیا وہاں ایک ہی پہلو پر بات ہوئی دوسرا پہلو نظر انداز ہوا اسلئے اس دوسرے پہلو پربات ہونا ضروری ہے۔ اس تحریر میں کوشش ہوگی کہ تمام پہلوئوں پر مکمل اور جامع بات کی جائے کہ کیسے حکومت بلوچستان ہو یا وفاقی حکومت دونوں نے معاملے کو نہ صرف مس ہینڈل کیا بلکہ مس مینجمنٹ بھی کی جسکے نتیجے میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی جو ایک عجیب سی روایت بن چکی ہے۔
ملک کے تمام شہریوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی پاکستان کی معاشی ترقی، غربت میں کمی اور ریاستی استحکام کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے لیے مضبوط معیشت اور سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے۔ جدید تعلیم سے نہ صرف پاکستانی معاشرے کا فرسودہ قبائلی اور جاگیردارانہ ڈھانچا تبدیل ہوگا بلکہ سماجی و معاشی رشتوں میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس لیے قبائلی، جاگیردار اور مذہبی اشرافیہ تعلیم کے ایسے منصوبوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کے ساتھ پولیس گردی عروج پر ہے۔ چیکنگ کے بہانے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا معمول بن گیا۔ لوگوں سے لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں مختلف الزامات کے مقدمات میں پھنسا کرحوالات میں بند کرنے کا عمل جاری ہے۔ عورتوں اور بچوں کی بھی عزت نہیں کی جاتی ۔ بلوچستان سے آنے والے مسافروں کے مطابق کراچی کے چھ سے زائد پولیس تھانے مذکورہ عمل کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ جن میں سعید آباد تھانہ، موچکو تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے شامل ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام کی ہمدردیاں نصیب ہوئیں جس کے نتیجے میں تیرہ برس سے سندھ میں یہ جماعت تخت نشین ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ دنوں اپنا وژن بیان کرتے ہوئے کہا کہ وقت لگے گا اور پھر کراچی روم بنے گا۔دانشور و ادیب اشفاق احمد کہتے ہیں جب میں اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔