*ہم اکثر و بیشتر مختلف مسائل اجاگر کرتے رہتے ہیں جو ہمارا ایک احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے اور آج جس مسلے کی نشاندہی کررہا ہوں اس کی پہلے بھی کئی بار نشاندہی کرچکے ہیں مگر آج پھر میں اپنے قارئین کو اس اہم مسلے پر راغب کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور ساتھ ساتھ یہ امید و تواقعات بھی رکھتا ہوں کہ وہ اس مسلے پر غور فکر ضرور کریں گے اور اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرینگے اور پولیس سمیت تمام انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دینگے خیر کہانی مختصر اب اس اہم مسلے پر آتے ہیں جس کو وہ تمام نشہ آور چیزیں جن کو ایک ساتھ پکارنے میں ایک نام منشیات بنتا ہے۔
اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ثقافت،مذہب اور قدرتی وسائل وہ تین چیزیں ہیں جو مل کر ہمارا ماحول اور پہچان بناتے ہیں،یہ ایک ایسے علاقے کا ذکر ہے جو بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے معاشرے میں گدر کے نام سے جانی جاتی ہے،گدر ایک تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ باہمت اور دلیر شخصیت کے مالک ہے ہمشیہ سے حق اور سچ کو اپنا کر اپنوں کی مدد کے لئے فرنٹ لائن میں ہوا کرتے ہیں اور گدر کے تاریخی روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ علاقہ ابتداء ہی سے ایک پر امن علاقہ رہا ہے۔
کس قدر حیرت اور ناقابلِ یقین بات ہے کہ “کراچی” کے ایک کروڑ سے زائد افراد “مسنگ ” ہیں اور ان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو تلاش ہے۔ شہر کی اہم شاہراہوں اور گلی کوچوں پر بینرز کے ذریعے پیغام آویزاں ہیں کہ” ہمیں درست شمار کرو”۔پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف ، پاک سر زمین پارٹی اور جماعتِ اسلامی کو 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر کراچی کی آبادی ” ڈیڑھ کروڑ ” پر شدید اعتراضات ہیں اور ان کے مطابق شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں بلکہ “ڈھائی کروڑ ” سے زائد ہے۔
سوشل میڈیا کی بدولت معلومات کی فراہمی اور پیغام رسانی انتہائی آسان ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ جدید اور ترقی یافتہ دور میں فور جی اور فائیو جی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو لوگ اپنا رہے ہیں ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جس طرح سوشل میڈیا نے کراس کیا ہے یا عوامی مقبولیت حاصل کی ہے اس کا آپ سوشل میڈیا دیکھنے والوں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس طرح سوشل میڈیا کے فوائد بے شمار ہیں اتنے ہی خطرات اور نقصانات بھی ہیں ۔ موجودہ حالات اورتیز رفتار دور میں ففتھ وار جنریشن کا دور دورہ ہے۔
بلوچستان کے عوام ایرانی تیل کی ترسیل پربندش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں جاری ہے۔ مظاہرین نے حکومت کی جانب سے تیل و ڈیزل کی بندش کو معاشی قتل قرار دیاہے۔ معاشی امور کے ماہرین نے ایرانی تیل کی ترسیل پر بندش سے بلوچستان میں جاری انسرجنسی میں مزید اضافہ ہونے کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ ایسی پابندیوں سے معاشرے میں بے چینی کی فضا قائم ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کاروبار کے خاتمے سے قبل بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع بنائے۔
پی ڈی ایم جس مقصد کیلئے بنایا گیا اور جس طرح شروع میں حکومت کے خلاف موثر تحریک کا آغاز ہوا عوام اور سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے آثار دیکھنے لگے تھے جب پی ڈی ایم نے گجرانوالہ کراچی کوئٹہ ملتان لاہور پشاور فیصل آباد و دیگر بڑے شہروں میں بڑے اور تاریخی اجتماعات کئے عوام کو یقین ہوگیا کہ اب کی بار ملک میں سیاسی اور جمہوری تبدیلی کا غالب امکان پیدا ہو جائے گا لیکن جب پی ڈی ایم نے سینٹ سے قبل استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان سے جہاں حکومت وقت لڑکھڑاتی ہوئی نظر آ رہی تھی وہیں پی ڈی ایم بھی اندورن خانہ ختلافات کا شکار ہونے لگی ۔
ایک زمانہ تھا کہ کہ علم کا اصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، نقل و حرکت کے محدود وسائل نے اسے غریب کے لیے مشکل تربنا دیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں علم کا حصول مرایات یافتہ طبقے کی دسترس تک محدود تھا۔ قلم کے ساتھ کتابوں کی طباعت کے باعث دنیا بھر میں محدود پیمانے پر کتابیں مارکیٹ تک پہنچتی تھیں اور علم کے حصول کے لیے طالب علموں کو سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔لہذا اہم تعلیمی مراکز ، یونیورسٹیز اور لائبریریز تک رسائی غریب کے لیے دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا تھا۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے قیام کے ساتھ ہی بہت سے افراد کی یہ رائے تھی کہ اب سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونگے اور یہ سسٹم اب گیا کہ تب گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں پی ڈی ایم کے استعفیٰ ایک آئینی بحران پیدا کردینگے لیکن اب سے چند روز قبل پیپلزپارٹی نے سی ای سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف ضمنی انتخاب لڑینگے بلکہ سینیٹ کے انتخابات میں بھی میدان خالی نہیں چھوڑینگے اور اگلے ہی روز پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی ایک نہ چلنے دی یہاں تک کہ ن لیگ بھی پیپلزپارٹی کی ہمنواء بن گئی تھی اب چونکہ سینیٹ انتخابات میں اترنے کا فیصلہ پی ڈی ایم کرچکی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار جس مقام پر واقع ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں “بلوچوں” کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ منفرد اور بلند مقام ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بلوچی زبان میں اسے “قیامہ سری” کہتے تھے۔ اور یہ زمین خدا داد خان گبول کی ملکیت تھی جب ریاست نے فیصلہ کیا کہ یہاں قائد اعظم کو سپرد خاک کیا جائے گا تو مقامی باشندوں نے اپنی زمین بانی پاکستان کی آخری آرام گاہ کے لئے پیش کردی اور یہاں کی آبادی کو وہاں منتقل کیا گیا جسے آج جہانگیر روڈ پٹیل پاڑہ کہا جاتا ہے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔
ایک مہینہ قبل کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں فورسز کے صوبائی سربراہوں، وزیروں، مشیروں اور لیڈروں کی ملاقاتیں ہوئیں، اجلاس ہوئے، خوردونوش کی دعوتیں اڑائی گئیں، بارڈر کے دورے کئے گئے اور اس سارے عمل کے بعد سرحدی عوام کو خوشخبری دی گئی کہ پاک ایران بارڈر کھل گئی ہے۔ اخباری لیڈروں (مرشدوں) نے اس اعلان کو اپنے اپنے من پسند پِیروں کی کاوشیں قرار دیکر مبارکبادوں اور تعریفوں کے انبار لگا دئیے اخبارات سے لیکر سوشل میڈیا تک تعریفوں کے پل باندھے گئے ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والوں اور اس سے منسلک لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب تبدیلی سرکار واقعی میں سرحدی عوام کو ریلیف دینے کیلئے۔