1857 کو انگریز سامراج سے آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے اورآزادی ہند کی مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے سیاسی جدوجہد کا وسیع ترین نظام کا قیام’’ جمعیت علماء ہند‘‘ کے نام سے 19 نومبر 1919ء کو عمل میں لائی گئی جس کی بنیاد شیخ الہند مولانا محمود حسن عثمانیؒ نے رکھی۔ اس جماعت کے زیر سایہ علماء ہند سیاسی جدوجہد کرتے رہے لیکن جمعیت علماء ہند تقسیم ہند کے فارمولے سے متفق نہیں تھے اسی وجہ سے 1945کو آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت پر ایک دھڑا قائم ہوا جس کو جمعیت علماء اسلام کا نام دیا گیا۔
انتیس دسمبر کو ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے نے اس تاثر کو مزید مستحکم کر دیا ہے کہ استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی باقی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہے۔ گو کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے پی ڈی ایم کے اس فیصلے کی توثیق کردی ہے کہ اکتیس دسمبر تک تمام اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفی اپنے قائدین کے پاس جمع کرائیں گے اور اس فیصلے کے تحت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین پارلیمنٹ نے اپنے استعفی جمع کرا دئیے ہیں۔
یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے نجی شراکت داروں کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لیے جہاں ہر قانون کو توڑ دیتی ہے وہیں عوامی مفادات کو طاقت کے زور پر کچل بھی دیتی ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور متنازعہ منصوبہ کا سنگ بنیاد بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں کروایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے نجی شعبے کے اشتراک سے ملیر ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سندھ حکومت کی غلط منصوبہ بندی سے کراچی کا ایک اور اہم منصوبہ کامتنازعہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
چند روز قبل وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ گزشتہ ایک دھائی سے بلوچستان کو سالانہ چار سو ارب ملتے ہیں، اسے پڑھتے ہی یادداشت پر زور دیتا رہا کہ ایسا کونسا سال تھا جب بلوچستان کو چار سو ارب روپے ملے ہوں ؟کچھ گھریلو مصروفیات میں ایسا الجھا تھا کہ نہ تو کوئی ریکارڈ دیکھ سکا نہ کوئی جواب وزیر موصوف کو ٹویٹ کرپا یا۔ بھلا ہو ہمارے صوبے کے سابق سینئر بیوروکریٹ معاشی ماہر محفوظ علی خان کا جو جب آن ڈیوٹی تھے تب بھی اور جب اب ریٹائرڈ ہیں تب بھی صوبے کے معاشی مفادات پر ہر فورم پر آواز بلند کرنا فرض سمجھتے ہیں ۔
2 جنوری 2021 کو اسلام آباد کا نوجوان اسامہ عوام کے رکھوالوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتا ہے۔ اور یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے۔ اب تو آئے دن ہمارے شہری پولیس کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ کبھی پولیس مقابلے میں تو کبھی کسی اور جرم میں۔ پنجاب پولیس میں تو یوں لگتا ہے جیسے غنڈے بھرتی ہوتے ہیں جنکا کام ہی غنڈہ گردی کرنا ہے۔
بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے قتل نے صوبے کی فضا کوایک بار پر سے سوگوار کر دیا۔ قتل ہونے والے مزدور ضلع بولان کے علاقے مچھ کے کوئلہ فیلڈ میں مزدوری کر کے زندگی کی گاڑی کو چلا رہے تھے۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور مچھ میں گشتری کے مقام پر پیش آیا جہاں نامعلوم شدت پسندوں نے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ سورہے تھے۔حملہ آوروں نے رہائشی کوارٹرز میں موجود کان کنوں کی شناخت کے بعد دس مزدوروں کو الگ کیا اوران کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں تیز دھار آلے سے قتل کر دیا۔
2020دنیا بھر میں حکومتوں کے لیے آزمائش کا سال ثابت ہوا۔ پاکستان میں حکومت کی کارکردگی بُری نہیں رہی، بلکہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر رہی ۔ عمران خان کو ادراک تھا کہ ملک کی بہت بڑی آبادی دیہاڑی دار مزدوروں پرمشتمل ہے اس لیے دیگر ملکوں کی اندھی تقلید سے گریز کرتے ہوئے پاکستان میں سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔ اگر یہ غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا جاتا تو ملک میں کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مرتے۔ غریب عوام کی مدد کے لیے حکومت کے زیادہ تر اقدامات مؤثر ہوئے اور بعض کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
“میں کریمہ بلوچ ہوں میری باری کب آئیگی” جیسی پوسٹوں کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہوگئی۔ ہر بلوچ بیٹی، کریمہ بلوچ کے قتل پر سوگوار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ان پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ سماج میں شہادت کو ایک رتبہ حاصل ہے۔ بلوچ حلقوں کے مطابق کریمہ بلوچ کی موت ایک افسوسناک عمل کے ساتھ ساتھ جرات و بہادری کی علامت بھی ہے۔
جب میں شمبے سماعیل ( گوادر شہر کا ایک محلہ) سے نکل کر ساحل سمندر پہ پہنچا تو حسب معمول میری نظر بنتی مٹتی سمندر کی لہروں پر پڑی، جو گیلی ریت پر میری قدموں کو چوم کر میرے لمس میں اتر جاتیں۔ مگر اب کی بار ساحل کے نظارے اور لہروں سے سرشاری کے بجائے دل میں ٹھیس اٹھنے کا احساس ہوا۔ یہ ٹھیسیں جیسے پورے وجود میں پھیل جاتیں۔ پھر بھی دل چاہ رہا تھا کہ ساحل کی گیلی ریت پر ٹہلتے ہوئے چند قدم مزید آگے بڑھوں۔مگر اس خیال نے قدم روک لئے کہ آگے جانا منع ہے۔ کیونکہ آگے اب ایک چیک پوسٹ ہے جہاں سیکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں۔
صوبہ بلوچستان بالخصوص پنجگور، تربت، خضدار، خاران و گوادر کوسٹل ایریا میں رہنے والوں کا ذریعہ معاش ایران بارڈر سے منسلک ہے، وہ ایران بارڈر سے تیل و خوردنی اشیاء کی تجارت کرتے ہیں، کئی سالوں سے ان کا یہ کاروبار جاری ہے۔ ان کی خوراک، تعلیم، صحت سب کچھ اسی کی بدولت چل رہی ہے ، وہ اپنے بچوں کی پڑھائی، بیماری و کھانے پینے سب چیزوں کے اخراجات انہی کاروبار کے پیسوں سے پورا کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں اچھا روزگارمہیا کیا جائے انہیں کوئی درد سرنہیں کہ ایران بارڈرجا کر وہاں سے تیل لائیں کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔