رائے عامہ میں یہ بات رفتہ رفتہ نظر انداز کردی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستانی معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف نے اس بارے میں حقائق آشکار کرنے میں تاخیر کی۔ یہ حکومت دیر سے ملک کے اقتصادی اور مالیاتی مسائل کی جانب متوجہ نہیں ہوئی اور دوسری جانب عالمی وباء نے عالمی معیشت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ قیمتوں کی نگرانی کے نظام میں ہونے والی غفلت کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ 2017-18میں جو شرح نمو 5اعشاریہ 6فی صد تھی وہ 2018-19میں 2اعشاریہ 4فی صد پر آگئی اور رواں مالی سال میں منفی 1اعشاریہ 5فی صد ہونے کی توقع ہے۔
بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر گزشتہ چند سالوں کی متواترحادثات اور بیگناہ افراد کی اموات کی شرح کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قومی شاہرائیں دراصل صوبے کے لئے خونی شاہرائیں بن چکی ہیں۔ قومی شاہراہیں جن میں کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تا لورالائی ملتان‘ کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان‘ کوئٹہ تاسبی جیکب آباد اور کوئٹہ تاتفتان کی شاہرائیں سنگل ہونے کی وجہ سے خونی شاہرائیں کہلائی جارہی ہیں۔کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی زیادتی کے باعث حادثات اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
گوادر شہر کا شمار پاکستان کی مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر کو تین اطراف سے سمندر نے گھیرہوا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ شہر خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے مگر افسوس کہ اس تحفہ کی قدر کسی کو نہیں ہے۔ گوادمیں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری بندرگاہ موجود ہے۔ اس شہر پر بہت سارے ممالک کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ آنے والے وقتوں میں یہ شہر بہت بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز بن جائیگا۔۔ گوادر بندرگاہ کو بنے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں مگراب تک ملک کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس شہر کا دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔
انسان اپنی قیمتی چیزوں کو حفاظت سے رکھتے ہیں اور اگر زیادہ قیمتی ہوں تو دوسروں کی نظروں سے بچا کر یا کسی کی زیر نگرانی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو بھی بچپن سے ایک قیمتی چیز کی طرح پہرے میں رکھا جاتا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ پہرے دار بدل جاتے ہیں۔ پہلے والدین اور پھر شوہر لیکن قیمتی اشیاء اپنی جگہ محفوظ رہتی ہیں۔چاہے مرد ہو یا عورت، دونوں انسان ہی پیدا ہوتے ہیں، مگر جنسی اعتبار سے مختلف ہونے کے باعث ایک کی رکھوالی کی جاتی ہے اور ایک رکھوالا بن جاتا ہے۔ سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ فرق قدرت نے نہیں رکھا بلکہ مختلف معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی کردار کے اعتبار سے ان کی پرورش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو پہلے اچھی بیٹی اور بہن ہونے کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی سیاسی محاذ آرائی پہلے سے موجود معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کو نہ صرف مزید مہمیز کر سکتی ہے بلکہ ملک کو انتشار اور انارکی کے راستے پر گامزن کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
سیاست کی گرما گرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے پورے پاکستان میں ایک تحریک شروع کر دی ہے۔یہ تحریک ووٹ کی عزت،ووٹ کی حرمت، ووٹ کے دفاع،مہنگائی اور اپوزیشن کی گرفتاریوں کے خلاف کی آواز بلند کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا،عدلیہ، اداروں پر دباؤ کا مقدمہ پی ڈی ایم لڑے گی۔پی ڈی ایم تحریک میں بھی اتحادی جماعتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیش آئے لیکن انہیں حل کر لیا گیا۔اب روٹیشن کی بنیاد پر پی ڈی ایم کی سربراہی کی باری تمام اتحادی پارٹیوں کو دیے جانے کی قرارداد منظور کی گئی۔
محکوم اور مظلوم قوموں کی تحریکوں میں ایسے افراد کی قربانیوں اورجہد مسلسل کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جو ہمہ وقت اپنے نظریاتی سوچ اور فکرخیال کی وجہ سے قومی تحریکوں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور تمام تر اذیتوں مشکلات تکالیف مسائل کا خندہ پیشانی اور مستقبل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ وقت او ر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے متعین کردہ راستے سیاست نظریے سے ہٹنے اور سوچ میں تبدیلی لانے اور اصولوں پرسودا بازی کرنے کا تصور تک نہیں کرتے اوردنیا کی کوئی طاقت ان کے پر عزم خیالات وافکار نظریات اور سیاست کے راستے میں کوئی روکاٹ پیدا نہیں کرسکتی۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں بہت مسائل ہیں اور رہیں گے لیکن سب سے بڑا مسئلہ اور چیلنج حکومت، اپوزیشن اورعوام کیلئے مہنگائی ہے، مہنگائی کا جن بے شرمی سے ناچ رہاہے، مہنگائی کا براہ راست تعلق تو حکومت، اپوزیشن اور عوام سے ہے لیکن گزشتہ دو برسوں میں جس بے حسی سے حکومت اور اپوزیشن نے اس مہنگائی جیسے سنگین مسئلے کو نظرانداز کیا بلکہ یوں کہیں کہ نچلے طبقے کو، مڈل کلاس سفید پوش لوگوں کی ہر مرحلے پر تذلیل کی یہ بہت ہی انوکھا معاملہ ثابت ہورہاہے، حکومت کی ناتجربہ کاری کہیں،جدید طرزحکمرانی کہیں یا کچھ اور ایسے ایسے فیصلے اور طریقے استعمال کئے گئے کہ مہنگائی میں مسلسل پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ میر پور خاص سندھ کا دس پندرہ سالوں کے بعد کا سفر تھا۔ میرپور خاص جانے کا پروگرام بھی اچانک بنا جب ہمارے دوست اختر حسین بلوچ کا رات کو فون آیا کہ کل میرپور خاص چلنا ہے۔ میر پور خاص اختر بلوچ کی جنم بھومی ہے لیکن وہ بھی تین چار سال کے بعد جا رہا تھا۔ میں نے چلنے کی حامی بھر لی۔ کراچی پریس کلب سے روانہ ہوئے تو ساڑھے تین چار گھنٹوں میں میر پور خاص پہنچ گئے۔ کراچی حیدرآباد موٹر وے پر سفر سبک رفتاری سے کٹا تو حیدر آباد میر پور خاص کی بہترین دو رویہ سڑک پر سفر کا مزہ دو بالا ہوگیا۔ میر پور خاص پہنچے تو ایک جہان حیرت ہمارا منتظر تھا۔
میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی قبل از وقت موت نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ موت بر حق ہے اس سے کسی ذی شعور انسان کو انکار نہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ کل نفس ذائقتہ الموت، ہرنفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔مگر کچھ اموات ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان کو نڈھال کرکے رکھ دیتی ہیں، ماہ و سال نہیں بلکہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں بھولے جا سکتے، وہ اپنے کردار و عمل سے انمٹ نقوشِ چھوڑ دیتے ہیں جو رہتی دنیا تک ہمیشہ قائم و دائم رہتے ہیں۔ ان کا کردار زبان بن کر بولتا ہے۔