میاں نواز شریف اور ایمپائر

| وقتِ اشاعت :  


اپوزیشن کی حالیہ اے پی سی کے بعد روز سوچا کچھ لکھوں لیکن کیا لکھوں کیسے لکھوں کچھ لکھا کچھ مٹا دیا اب تو اے پی سی بھی پرانی ہوگئی تو سو چا قسطوں میں لکھوں تو آج فیصلہ کیا کہ میاں محمد نواز شریف کی تقریر پر لکھوں لیکن پھر مسئلہ وہی کیا لکھوں کیسے لکھوں ایسے کسی معاملے پر جہاں قومی سطح پر کچھ بولنا یا لکھنا ہوتا تھا۔تو میری رہنمائی کوئی مہربان نے کردی ہے گو کہ میں جن افراد سے رہنمائی لیتا ہوں انکی ہر بات سے اتفاق نہیں کرتا لیکن بڑی حد تک کوشش کرتا ہوں کہ اپنی میموری میں وہ باتیں ضرور رکھوں جو مجھے ٹھیک لگیں اور ایک معاملے پر مختلف الخیال لوگوں سے الجھنا میری عادت ہے۔



کتاب ایک وفادار دوست

| وقتِ اشاعت :  


کسی مفکر کا قول ہے کہ “اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی یعنی انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے”۔ مطلب یہ ہے کہ کتب بینی سے ہمیں ٹھوس دلائل ملتے ہیں اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ صاحب مطالعہ شخص کی باتوں میں جان ہوتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سنجیدہ ہوکر مدلل انداز میں لب کشائی کر تاہے۔ عصر حاضر میں ترقی کا اصل سبب وہ مکتوب علم وہنر ہے، جو کتابوں کی شکل میں ایک عظیم خزینے کی مانند موجود ہے۔ اگر یہ علم ایسا محفوظ نہ ہوتا تو آج کے یہ ترقی یافتہ ممالک سریا نہیں بلکہ تحت الثریٰ پر ہو تے۔



کراچی، کوئٹہ تا چمن ایکسپریس وے کی تعمیر اور نئی منطق؟

| وقتِ اشاعت :  


معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باوجوہ کے اعلان کے مطابق وزیراعظم نے کراچی‘ کوئٹہ،چمن ایکسپریس وے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 790کلو یٹر طویل یہ شاہراہ ”بناؤ، چلاؤ اور منتقل کرو“ کی پالیسی کے تحت تعمیر ہوگی۔منصوبے کی فزبیلٹی اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے عمل شروع ہوچکا ہے ان کے بقول بھاری ٹریفک اور بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے اس شاہراہ کی تعمیر ناگزیر ہے۔دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس اہم منصوبے کی منظوری پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے اظہار تشکر کرتے ہوئے۔



طاقت کا سر چشمہ اور مقدس ملاقاتیں

| وقتِ اشاعت :  


ملکی سیاست اس وقت ملاقاتوں کے گرد طواف کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں کس حد تک مقدس اور مقدم ہیں اس متعلق ہم آگے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن فی الوقت کون، کب اور کس جگہ عسکری قیادت سے ملاقات کا شرف حاصل کرچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے انکشافات نے تجزیوں، تبصروں اور ٹی وی ٹاک شوز کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے ہر طرف ان مقدس ملاقاتوں کا چرچا ہے۔ کوئی ان کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ رہا ہے تو کوئی ان کی مخالفت کرکے سیاست دانوں کے دوہرے کردار کا مذاق اڑا رہا ہے۔



بلوچستان کو عزت دو، موجودہ حالات کا تقاضا

| وقتِ اشاعت :  


جدید ترقی اور سول لائزڈ معاشرے میں ترقی کا آغاز پسماندہ علاقوں سے ہی کیا جاتا ہے جبکہ آئین پاکستان بھی پسماندہ اور عدم ترقی کے حامل علاقوں اور صوبوں کی ترقی کی ترجیحی بنیادوں پر وکالت کرتی ہے۔ بلوچستان ملک بلکہ یوں کہا جائے کہ خطے کا پسماندہ ترین علاقہ ہے توبے جا نہ ہوگا بلوچستان کو ستر کی دھائی سے صوبہ کا درجہ ملا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکمران نے صوبے کی پسماندگی اور بڑا رقبہ ہونے کے باعث کوئی بھی میگا منصوبہ کا آغاز نہیں کیا یا کسی بھی حکمران نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا سوچا تک نہیں ہے۔



گریٹر بلوچستان اور گریٹر کردستان کی داستان

| وقتِ اشاعت :  


جنوبی بلوچستان ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کے تحت بلوچستان کے عوام کو ذہنی طورپر تیار کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان کو انتظامی امور کی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی بلوچستان کا نام میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ مکران اور جھالاوان ناموں کو مٹایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان ناموں کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔۔ ریاست مکران کی اپنی تاریخ ہے۔ جبکہ جھالاوان ریاست قلات کا ایڈمنسٹریٹیو ڈویژن تھا۔ ایک پالیسی کے تحت اس تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا قوموں کو مسخ کرنے کے مترادف ہوتاہے۔



کیا اپوزیشن اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگی؟

| وقتِ اشاعت :  


اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملکی سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہ بتدریج شدت اختیار کرنے والا ہے کیوں کہ اے پی سی اعلامیہ پر عملدرآمد کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے حکمت عملی ترتیب دینا شروع کردی ہے۔ اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنما ؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی گئی اور مولانا فضل الرحمن کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہ بنانے کی تجویز بھی منظور کی گئی جبکہ کراچی میں مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو زرداری سے تفصیلی ملاقات کی اور اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔اے پی سی کی پہلی بڑی کامیابی سیاسی قومی اتحاد کی تشکیل ہے جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔



اے پی سی سے عوام کی تواقعات

| وقتِ اشاعت :  


سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کا مشہور واقعہ ہے تین چار نوسرباز دیہاڑی مارنے کے چکر میں گلی محلوں میں گھوم رہے تھے، انہیں ایک پاگل مل گیا اس کو نیا کاٹن کا جوڑا، نئی ٹوپی اور کاندھے پر سندھی اجرک اور نئے جوتے پہنانے کے بعد اس کو کہا کام کرو گے ”ہاں“روٹی کھاؤ گے ”ہاں“یعنی ہاں ان کا تکیہ کلام تھا۔اس کو سکھر کی بڑی پرچون کی دکان پر لے گئے، نوسربازوں نے دکاندار کے سامنے کہا بھوتار سودا سلف لیں۔ کہاں ”ہاں“ مختصر یہ کے بڑا سامان لیا، چھوٹے مزدا میں سامان لوڈ ہو گیا۔ نوسربازوں نے کہا بھوتار پیسے دو دکاندار کو، کہا ”ہاں“۔



پختون کلچر (کلتور)ڈے۔۔۔۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


23 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پختون کلچر ڈے کے طور پر جوش و خروش سے مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات رکھی جاتی ہیں جس میں پشتون کلچر کے مختلف رنگ نظرآتے ہیں جن میں خواتین کی کشیدہ کاری سے مزین پوشاک، شادی بیاہ کے موقع پر استعمال ہونے والے خصوصی زیورات، خوراک، رہن سہن، ملبوسات، روایتی رقص اتنڑ کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ مختلف سٹالز بھی لگائے جاتے ہیں جن میں اْن ثقافتی اشیاء کو رکھا جاتا ہیں جن کا استعمال اب ختم ہو رہا ہے۔



اٹھارویں آئینی ترمیم سے تکلیف کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


مملکت خدا داد میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے سانحہ مشرقی پاکستان کا مؤجب بن گیا اور 1971 میں ملک دولخت ہوگیا لیکن اس کے بعد بھی چھوٹے صوبوں کے متعلق وفاق کی جارحانہ پالیسیوں میں کمی نہیں آئی۔ خدا خدا کر کے 1973 کا دستور اتفاق رائے سے منظور ہوگیا اور چھوٹے صوبوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ دس سال بعد آئین میں موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی لیکن 1977 میں جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔