|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2020

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کا مشہور واقعہ ہے تین چار نوسرباز دیہاڑی مارنے کے چکر میں گلی محلوں میں گھوم رہے تھے، انہیں ایک پاگل مل گیا اس کو نیا کاٹن کا جوڑا، نئی ٹوپی اور کاندھے پر سندھی اجرک اور نئے جوتے پہنانے کے بعد اس کو کہا کام کرو گے ”ہاں“روٹی کھاؤ گے ”ہاں“یعنی ہاں ان کا تکیہ کلام تھا۔اس کو سکھر کی بڑی پرچون کی دکان پر لے گئے، نوسربازوں نے دکاندار کے سامنے کہا بھوتار سودا سلف لیں۔ کہاں ”ہاں“ مختصر یہ کے بڑا سامان لیا، چھوٹے مزدا میں سامان لوڈ ہو گیا۔ نوسربازوں نے کہا بھوتار پیسے دو دکاندار کو، کہا ”ہاں“۔

انہوں نے کہاکہ بھوتار ہم سامان والے ٹرک کو بازار سے نکال کرآتے ہیں۔کہا ہاں۔ وہ چلے چلے گئے چار پانچ گھنٹے گزر گئے دکاندار نے کہا پیسے دو کہاں ہاں۔ آخر کار شام ہو گئی۔ دکاندار پریشان ہو کر اس کو مارنا شروع کردیا، پولیس آگئی خوب پٹائی کی، کپڑے پھاڑ دیئے گئے، پھر بھی کہتا رہا ”ہاں …… ہاں“ پولیس نے غصہ میں پوچھا تم پاگل ہوکیا، پھر کہاں ہاں۔ مجھے بھی آل پارٹیز کانفرنس دیکھ کر واقعہ یاد آیا کیونکہ مولانا فضل الرحمن، نواز شریف، آصف علی زرداری کو پاگل کی ضرورت ہے جو”ہاں ”کہے۔ نواز شریف آصف زرداری کے گرد کرپشن کی جال بچھائی گئی ہے۔

اب مولا نا پریشان ہیں نہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہ پی ٹی آئی کے جیالے لفٹ کرا رہے ہیں، مولانا خود کو کیسے بچائیں۔ مذکورہ اے پی سی میں ایسا لگ رہا تھا سیاستدان خود کو بچانے کے لیے پریشان تھے۔ ہمیں حیرت ہے کہ ملکی معیشت،کرونا بحران، بیروزگاری، سرکاری ملازمتوں، میرٹ پر سب کے ہونٹ سلے ہوئے نظر آئے۔ عوام بیروزگاری سے پریشان ہیں ارے عقل کے اندھوں کراچی کی بارش میں تباہی سب کے سامنے ہے بلاول زرداری بھٹو چڑھ کر بول رہا ہے نواز شریف بیمار ہیں عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے 55منٹ تقریر جھاڑ سکتے ہیں لیکن مولانا صاحب کی براہ راست تقریرسوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی سے برداشت نہ ہو سکا۔

اے پی سی کے شرکاء اپنے بچاؤ میں لگے ہوئے نظر آئے، کسی نے ڈیم بجلی بحران نئی صنعتوں کے قیام کی بات نہیں کی، کسی نے نوازشریف زرداری کو کرپشن یاد نہیں کرائی۔ مجھے حیرت ہے پاگل کی طرح ہاں میں ہاں ملانے والو، بلوچستان کے لیڈران کو پریس کانفرنس میں چچا بھتیجی کو بٹھانے کے بجائے سردار اختر جان مینگل محمود خان، اچکزئی کو بٹھانے اور بولنے کا موقع دیتے، بلوچستان کے لیڈران ایسے ہی ہونقوں کی طرح بیٹھے رہے،نوسر بازوں کی طرح نواز شریف آصف زرداری مولانا فضل الرحمن حکو مت کو آنکھیں دکھاتے رہے کیونکہ یہ نوسربازوں کی طرح لوٹی دولت لیکر فرار ہو جائیں گے۔

سندھ پنجاب کے پی بلوچستان کی چھوٹی سیاسی جماعتیں پاگل کی طرح ”ہاں“ کی پاداش میں عوام کو جوابدہ ہونگے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اے پی سی سے عوام کے لیے کیا تحفہ یا مطالبات تسلیم کروا کر آئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کی مراعات لوٹ رہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن اپنا پنڈورا بکس بند کرانے میں لگے ہیں۔مولانا صاحب نے لانگ مارچ دھرنا کر دکھا یا ہے، مدرسے کے طلباء کو ساتھ لیکر اربوں روپے سادہ لوح افراد سے چندہ جمع کیا عوام کے لیے اسلام آباد سے کیا لے کر آئے، الٹا عوام کو بیووف بنایا گیا یقین دلایا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت نہیں بڑھے گی وہ بڑھ گئی وزیراعظم جائے گا وہ پہلے سے بھی مضبوط ہو گیا ہے۔مجھے حیرت ہے۔

نواز شریف کی تقریر پر جو نواز شریف کی انگلی کو پکڑ کر لوہے کی بھٹی (لوہے کی دکان) سے نکال کر اقتدار کے ایوان تک لا ئے، اگر نواز شریف چور دروازے استعمال نہ کرتا آج عمران خان کو لانے والوں کے خلاف بات نہیں کرنی پڑتی۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی راتوں رات کیسے بنی، اس میں سیاستدانوں نے ایک پل میں عوام کے اعتماد اور اپنے نظریات کا سودا کر ڈالا کیونکہ سیاستدان جمہوری اداروں کے تقدس کو چھوڑ کر سرکاری نوکروں کے پیچھے لگ گئے ہیں،ووٹ کی تقدس کو بھول چکے ہیں۔ قائداعظم کے نظریہ کو بھول چکے ہیں ہمارے اداروں کو بھی چاہیے سیاست میں مداخلت چھوڑ دیں آج ہر سیاستدان فوج کو براہ راست ٹارگٹ کر رہاہے۔حکومت بنا نے گرانے کا اختیار عوام کو دیں تاکہ عوام محب وطنوں کو پارلیمنٹ، ایوان بالا تک لاکر ان کے گربیان پکڑ سکیں۔

آج سیاست دان عوام کو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ آپ کے ووٹوں سے ہم نہیں جیتے،ہمیں تو۔۔۔۔۔ان لوگوں نے جتوایا ہے۔اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر نے اپوزیشن کو مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں عمران خان کو لانے والے ناراض ہو گئے تو شاید ہم بھی پارلیمنٹ سے دو نو گیارہ ہو جائیں۔