بطور سیاسی کارکن کے میرے میر حاصل خان بزنجو صاحب سے زندگی کے بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مجھ سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس کے عہد میں اْسکے کاروان کا ساتھی رہا ہوں۔ وہ ایک جرات مند مدبر سیاسی لیڈر تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم میر صاحب کو آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک بہادر جمہوری لیڈر کے طورپر جانتے ہیں وہ بدترین آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے لیے قید وبند کی صْعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب مشرف دور میں وہ جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوکر آمریت کو للکارتے تھے۔
نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے بلند قامت سیاسی راہنما ہونے کے علاوہ ملک بھر کی معروف سیاسی شخصیت تھے۔اس لیے میڈیا کے ذریعے ان کی سیاسی سرگرمیوں، بیانات اور موقف کی خبر ملتی رہتی تھی لیکن ان سے ذاتی طور پر میری ایسی جان پہچان نہیں تھی جیسے دیگر کئی بلوچ قائدین کے ساتھ رہی تھی جن کے ساتھ میرا واسطہ سیاسی سرگرمیوں، سیاسی قیدوبند اور جلاوطنی کے دوران رہا۔ کیونکہ1972 کے بعد نواب صاحب اور میں اکثر ایک دوسرے سے مختلف (اور کبھی تو مخالف) سیاسی کیمپوں میں بھی رہے۔
پوری قوم آج نواب اکبر بگٹی شہید کی برسی منارہی ہے 26اگست 2006کو نواب بگٹی کو ایک فوجی کارروائی میں شہید کیا گیا تھا واقعہ کی تمام تفصیل حکومت کے پاس ہیں تاہم جو بہت کم اطلاعات عام لوگوں تک پہنچی تھیں ان کے مطابق نواب بگٹی نے ہتھیار ڈالنے سے شہادت کو ترجیح دی اور مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ نواب بگٹی کی شہات کے بعد ان کی شخصیت ایک قومی شہید کی حیثیت اختیار کرگئی اور بلوچ تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔ پوری بلوچ جدوجہد میں نواب بگٹی کا کردار نمایاں رہا ہے وہ ہمیشہ ہر اول دستے کی حیثیت میں رہنمائی کا کردار ادا کرتے نظر آئے۔
دنیا بھر کی طرح بلوچستان اور سندھ میں بھی آج بلوچ قوم پرست رہنما شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس دن کومنانے کا مقصد ہے کہ نواب صاحب کی طرز زندگی اور شہادت کے مقصد پر روشنی ڈالاجائے۔میری پہلی ملاقات نواب اکبر خان بگٹی سے طالبعلمی کے زمانے میں ہوئی۔ جب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سابق چیئرمین رازق بگٹی کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ عام انتخابات میں رازق بگٹی اور نواب اکبر خان ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ جب ہم دیگر بی ایس او کے ساتھیوں کے ساتھ انتخابات کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے ڈیرہ بگٹی پہنچے۔
مشہور بلوچ قوم پرست سیاسی لیڈر، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبرخان بگٹی نواب محراب خان کے ہاں بارکھان میں 12 جولائی 1927ء میں پید ا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ پچاس سال پہلے انیس سوچھیالیس میں اپنے قبیلہ کے انیسویں سردار بنے انیس سوانچاس میں انہوں نے حکومت کی خصوصی اجازت سے پاکستان سول سروسز اکیڈمی سے پی اے ایس (اب سی ایس ایس) کا امتحان دیئے بغیر تربیت حاصل کی۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے واضع احکامات ہیں اراکین اسمبلی اپنے فنڈز مرضی پر خرچ نہیں کر سکتے ہیں جبکہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اراکین اسمبلی کو ملنے والے فنڈز کو تمام محکموں میں تقسیم کار کا پلان دیا تھا جس کی وجہ سے تمام محکموں کو ضرورت کے مطابق ترقیاتی فنڈز کا حصہ ملنے لگا ہے نصیرآباد دویڑن خاص کر نصیرآباد جعفرآباد اور صحبت پور میں سیاہ کاری کے واقعات رونما ہوتے ہیں بیشتر واقعات میں خواتین قتل ہونے سے بچنے کی صورت میں گورنمنت کا خواتین شلڑ ہاوس نہ ہونے کی وجہ سے نوابوں سرداروں وڈیروں یا پھر سعادات کے گھروں میں پناہ دی جاتی ہے۔
تربت کے نوجوان حیات بلوچ کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت نے بلوچستان بھر میں ایک طوفان برپا کرکے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔سوشل میڈیا میں ان کے والد اور بوڑھی والدہ کی جوان بیٹے کی سڑک پر پڑی لاش والی تصویر نے بلوچستان بھر کیا ملک بھر کے لوگوں خصوصاً والدین کو رلا دیا۔ یہ ایک ایسی دلخراش تصویر تھی کہ جو ہر ذی شعور انسان کے دل کو چیر کر گزری۔ آج اگر بلوچستان سمیت ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات شدت کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے غریب طالب علم حیات بلوچ کی موت نے ملک کی فضا کو رنجیدہ کردیاہے۔
میر حاصل خان بزنجو کا شمار بلوچستان کی اہم قد آور سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے اہم سیاسی گھرانے بزنجو خاندان سے ہے۔ میر حاصل خان بزنجو کو سیاسی وجدان اپنے والد اور عالمی پایہ کے سیاست دان بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سے ملا۔میر حاصل خان بزنجو گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اس کے بعد اپنے والد کی سیاسی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی میں بھی سرگرم رہے۔ کہتے ہیں کہ میر حاصل خان بزنجو نے سیاست میں جو اپنا مقام بنایا۔
سال 1989, اگست کی دس اور گیارہ کی درمیانی شب ہم بہت سارے لوگ کلفٹن میں واقع مڈایسٹ ہسپتال کے لان میں غم اور پریشانی کے عالم میں گرفتار تھے جبکہ اوپرآئسولیشن وارڈ میں بابائے بلوچستان، میر غوث بخش بزنجو زندگی کے آخری موڑ پر آخری سانس لے رہے تھے کیونکہ ڈاکٹرز نے میر صاحب کے کینسر کے موذی مرض کو اب لاعلاج قرار دیدیا تھا۔ میری درخواست پر بابا کے داماد، ڈاکٹر یوسف بزنجو نے ازراء مہربانی اندر آنے کی اجازت دی اور یوں مجھے ان کی زندہ حالت میں دیدار کا موقع ملا۔ افسوس اسی رات میر صاحب دار فانی سے کوچ کر گئے۔
اگر آپ کا ما ضی آ پ کے مستقبل کیلئے ایک Guidlineہے یعنی ر ہبر ہے را ستہ دکھا نے والا ہے تو سمجھیں وہ خو بصو ر ت ما ضی ہے۔اور اُ س کا حسن آپ مستقبل میں کھو تے ہو ئے دیکھ رہے ہیں اور ما ضی کے لو گ، رشتے، قد ر یں، علم و آ گا ہی، ہر مید ا ن کی پیشہ وارا نہ صلا حتیں آ پ کو کہیں نظر نہیں آ رہیں، آ پ اُ س کی تلا ش میں سر دھڑ کی با ز ی لگا رہے ہیں مگر اُ س کا کو ئی سر ا ہا تھ نہیں آ رہا۔ تو پھر کہنا پڑ تا ہے