بلوچستان ہائی کورٹ کے واضع احکامات ہیں اراکین اسمبلی اپنے فنڈز مرضی پر خرچ نہیں کر سکتے ہیں جبکہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اراکین اسمبلی کو ملنے والے فنڈز کو تمام محکموں میں تقسیم کار کا پلان دیا تھا جس کی وجہ سے تمام محکموں کو ضرورت کے مطابق ترقیاتی فنڈز کا حصہ ملنے لگا ہے نصیرآباد دویڑن خاص کر نصیرآباد جعفرآباد اور صحبت پور میں سیاہ کاری کے واقعات رونما ہوتے ہیں بیشتر واقعات میں خواتین قتل ہونے سے بچنے کی صورت میں گورنمنت کا خواتین شلڑ ہاوس نہ ہونے کی وجہ سے نوابوں سرداروں وڈیروں یا پھر سعادات کے گھروں میں پناہ دی جاتی ہے۔
تربت کے نوجوان حیات بلوچ کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت نے بلوچستان بھر میں ایک طوفان برپا کرکے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔سوشل میڈیا میں ان کے والد اور بوڑھی والدہ کی جوان بیٹے کی سڑک پر پڑی لاش والی تصویر نے بلوچستان بھر کیا ملک بھر کے لوگوں خصوصاً والدین کو رلا دیا۔ یہ ایک ایسی دلخراش تصویر تھی کہ جو ہر ذی شعور انسان کے دل کو چیر کر گزری۔ آج اگر بلوچستان سمیت ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات شدت کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے غریب طالب علم حیات بلوچ کی موت نے ملک کی فضا کو رنجیدہ کردیاہے۔
میر حاصل خان بزنجو کا شمار بلوچستان کی اہم قد آور سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے اہم سیاسی گھرانے بزنجو خاندان سے ہے۔ میر حاصل خان بزنجو کو سیاسی وجدان اپنے والد اور عالمی پایہ کے سیاست دان بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سے ملا۔میر حاصل خان بزنجو گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اس کے بعد اپنے والد کی سیاسی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی میں بھی سرگرم رہے۔ کہتے ہیں کہ میر حاصل خان بزنجو نے سیاست میں جو اپنا مقام بنایا۔
سال 1989, اگست کی دس اور گیارہ کی درمیانی شب ہم بہت سارے لوگ کلفٹن میں واقع مڈایسٹ ہسپتال کے لان میں غم اور پریشانی کے عالم میں گرفتار تھے جبکہ اوپرآئسولیشن وارڈ میں بابائے بلوچستان، میر غوث بخش بزنجو زندگی کے آخری موڑ پر آخری سانس لے رہے تھے کیونکہ ڈاکٹرز نے میر صاحب کے کینسر کے موذی مرض کو اب لاعلاج قرار دیدیا تھا۔ میری درخواست پر بابا کے داماد، ڈاکٹر یوسف بزنجو نے ازراء مہربانی اندر آنے کی اجازت دی اور یوں مجھے ان کی زندہ حالت میں دیدار کا موقع ملا۔ افسوس اسی رات میر صاحب دار فانی سے کوچ کر گئے۔
اگر آپ کا ما ضی آ پ کے مستقبل کیلئے ایک Guidlineہے یعنی ر ہبر ہے را ستہ دکھا نے والا ہے تو سمجھیں وہ خو بصو ر ت ما ضی ہے۔اور اُ س کا حسن آپ مستقبل میں کھو تے ہو ئے دیکھ رہے ہیں اور ما ضی کے لو گ، رشتے، قد ر یں، علم و آ گا ہی، ہر مید ا ن کی پیشہ وارا نہ صلا حتیں آ پ کو کہیں نظر نہیں آ رہیں، آ پ اُ س کی تلا ش میں سر دھڑ کی با ز ی لگا رہے ہیں مگر اُ س کا کو ئی سر ا ہا تھ نہیں آ رہا۔ تو پھر کہنا پڑ تا ہے
بڑی سے دنیا کے نقشے پرچھوٹا سا ملک پاکستان، جو اپنی ایک پہچان رکھتا ہے کرکٹ ہو تو پاکستان کا نام، فٹبال کی ٹیم نہیں ہے لیکن دنیا بھر میں بہترین فٹبال پاکستان بناتا اور ایکسپورٹ کرتا ہے ہاکی میں بھی کبھی ہمارا طوطی بولتا تھا پھر چاہے اسنوکر ہو یا باکسنگ ہم نے اپنے نام کو کھیلوں میں کسی حد تک زندہ رکھا ہواہے یعنی کھیل ہماری شناخت ہیں پھر چاہے کھیل میدان میں ہو یا سیاست میں ہم اس کھیل کے ماہر ہیں۔ یوں تو ہر ملک کسی خاص وجہ سے جانا جاتا ہے جیسے ہماری ثقافت میں تنوع ہے ہماری شہرت کی وجوہات بھی تنوع گیر ہیں جیسے پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاکا چھٹا آبادی والا ملک بھی ہے۔
یہ جو آنے والے کل کی سوچ رکھتے ہیں یہ جوکھلی آنکھوں سے سنہرے خواب دیکھتے ہیں یہ جو ایک تصورکامل پریقین رکھتے ہیں میرے دیس میں یہ وقت سے پہلے کیوں مٹ جاتے ہیں یامٹادئیے جاتے ہیں؟میرے دیس میں کیوں ایک بہترمستقبل کی خواب دیکھنے والے کا، ایک زرخیز ذہن رکھنے والے کا، ایک نئی دنیاکی آرزو کرنے والے کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ ہمارے سمیت ہمارے دیس کے حقیقی وارثوں نے کبھی یہ سوچاہے کہ یہ خونی کھیل کیوں رچایا گیاہے اورکب تک اسے یونہی رچایا جائے گا۔جبکہ ایک بہترکل کیلئے سوچنا، ایک سنہرے مستقبل کاخواب دیکھنا اوران خوابوں کی تعبیرکی تمنا رکھنا پوری دنیاکے انسانوں کابنیادی حق مانا جاتاہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ روڈ حادثے بلوچستان میں ہوتے ہیں اور ان حادثات کی بدولت بلوچستان میں ہی پاکستان کے مقابلے میں روڈ حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے ایک ماہ یعنی جولائی میں روڈ حادثات میں ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہونے والی انسانی اموات کا صرف جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتنی اموات کا ذمہ دار نہ تو ریاست ہے اور نہ ہی قومی وصوبائی حکومتیں ہیں۔ تاہم ان قومی شاہراؤں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کروڑوں روپے کا ٹول ٹیکس یعنی جگا ٹیکس وصول کر رہا ہے جبکہ اس کے باوجود بلوچستان میں قومی شاہراؤں کی تباہ حالی اور خستہ حالی کو بہتر کرنے میں این ایچ اے اور وفاق اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
: نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کا وارث ان کی اولادیں نہیں ہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالعبلمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی سے اختتام کیا۔
ملک میں ہمشیہ سیاسی پارٹیاں ہی خود کو عوامی مسیحا گردانتی ہیں اور خود کو عوامی مفادات اور عوام کی بھلائی کا محافظ پیش کرتی ہیں لیکن ساٹھ کے عشرے کے عوام اور آج کے عوام میں ارض و سما کا فرق ہے۔اہل ملک کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف اپنے آور اپنی رفیقوں کی مفادات کی نگہبان ہوتی ہیں اس میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے کوئی منصوبہ ہی نہیں ان کا منزل عوامی خدمت نہیں صرف اقتدار ہوتا ہے یہ عوامی خدمت کے جذبے سے بالکل عاری ہوتی ئاس لیئے اب عوام میں ان کی پزیرائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کے لیئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی اکھٹے نہیں ہوتے یہ صرف اپنے مفادات اور اپنے حواریوں کے فائدے کا سوچتے ہیں۔ ملکی سیاست میں سب سے تکلیف دہ سیاست بلوچستان کی ہے۔