بلوچستان میں ملک کے دیگر علاقوں سے زائد غربت ہے اور اس کے چالیس فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور غربت کے شکار عوام جدید ترین طبی و دیگر سہولیات سے اب تک مکمل ناآشنا ہیں یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے شہری ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی نسبت ترقیاتی عمل اور جدید سہولیات سے اب تک نہ تو مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی ایسی سہولیات کی فراہمی کیلئے صوبائی حکومت نے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں کے مکین صرف اللہ ہی کے توکل پر زندگی کے شب و روز گزارنے میں مصروف ہیں۔
آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں وہی ممالک ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفیل ہیں۔امریکہ کو اس حوالے سے ہر دور میں برتری حاصل رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ امریکہ کا تیار کردہ جی پی ایس سسٹم تھا جو عشروں سے پوری دنیا میں کمیونیکیشن سے زراعت اور ما حولیات تک بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح نیویگیشن سسٹمز اور خلا ئی سرگرمیوں پر بھی امریکہ کی اجاراداری اب جلد ختم ہو نے والی ہے۔
باپ کا بچھڑ جانا اپنے اوپر کسی پہاڑ کے ٹوٹنے سے کم نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر باپ اپنی بیٹی کے لئے ایک رول ماڈل ہوتا ہے. میرے بابا جان بھی میرے لیے ایسے ہی تھے. میرے سب سے قریب تر، میرے بیسٹ فرینڈ، میرے سپورٹر، میرے استاد محترم تھے انکے جانے سے ہماری زندگیوں میں جو خلاء جو کمی پیدا ہوئی ہے وہ مرتے دم تک پر نہیں ہوسکتا۔
معاشی اور تعلیمی اعتبار سے معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں،عوام کی علمی سطح بلند،ہر طرف تعلیم کاچرچاہو۔تعلیمی اداروں میں کتب خانے اور لائبریریاں موجود ہوں۔
بلوچستان جغرافیہ کے لحاظ پاکستان کا سب بڑا صوبہ ہے جو کہ ملک کے کل رقبے کا 44 فیصد بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی دیگر تمام صوبوں سے کم ہے۔ دو ہزار سترہ میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اس وقت بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ بیس سے زائد ہے۔ چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی وباء ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں داخل ہوئی تو بلوچستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سندھ کے شہر دادو کا رہائشی ایک بارہ سالہ بچہ تھا جو کہ فیملی کے ہمراہ ایران سے سفر کر کے بلوچستان میں داخل ہوا۔
عزیر بلوچ کی جے آ ئی ٹی منظر عام پر لائیں انکی حقیقت دنیا کہ سامنے آئیگی چیخ چیخ کر پاکستان تحریک انصاف کے رکن علی زیدی نے قومی اسمبلی کا ایوان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں میرے لیاری کی پہچان اب عزیر بلوچ اور گینگ وار رہ گئی ہے؟ میرے لیاری کی فخریہ پہچان توروایت،ثقافت،محبت،مہمان نوازی، موسیقی، کھیل کھلاڑی، نظریاتی سیاسی کارکنوں کی نرسری نہیں تھی؟ تو پھر کس نے کہانی بدل دی، میرے لیاری کی یہ پہچان کیوں بدلی اور کس نے میرے لیاری کا چہرہ اتنا مسخ کیا جہاں کی پر رونق زندگی، جہاں کی تھڑے کی بیٹھک آج بھی مجھے یاد آتی ہے۔
دشتِ مکران کا نام سنتے ہی ذہن میں امن و امان کی خراب صورتحال آتی ہے۔ آئے دن جھڑپوں اور مقابلوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ لاشوں کا ملنا کوئی نئی بات نہیں۔ آج دشت مکران وار زون میں تبدیل ہوچکا ہے۔ موجودہ خراب صورتحال کے پیچھے لوگوں کی محرومیاں ہیں۔ کیونکہ احساس محرومی ایک انسانی کیفیت ہے جو کسی بھی احساسِ محرومی کے مریض میں جذبات، کسی پریشانی یا غصے کے نتیجے میں واقع ہوتے ہیں۔احساسِ محرومی وہ دماغی یا ذہنی ناخوشگوار کیفیت ہے جو اپنے مقصد یا خواہشات کے پورا نہ ہونے پر محسوس کی جاتی ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اگر یوں کہا جائے کہ صرف بلوچستان ہی ملک کے آدھے حصے پر مشتمل ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ 1972سے بلوچستان کو صوبے کا اسٹیٹس ملنے کے بعد بلوچستان کو وفاق میں ہر دور میں ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وفاق میں بلوچستان کے ملازمتوں کا کوٹہ انتہائی کم ہے یا یوں کہیئے کہ یہ کوٹہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جس کے لیے وفاقی محکموں اور ملازمتوں میں صرف چھ فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
کتب خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابوں کی شکل میں انسانی خیالات، تجربات اور مشاہدات کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ ایک شخص کے خیالات سے نہ صرف اس کی نسل بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلیں بھی استفادہ کرسکیں۔کتاب، مکتب اور مکتبہ، یہ تینوں چیزیں قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ ہر قسم کی ترقی کے دروازے انہیں کنجیوں سے کھْلا کرتے ہیں۔ یہ تینوں حصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں۔ علم، نور ہے۔ علم، انسانیت کا زیور ہے۔ علم ہی سے جائز و ناجائز میں فرق کیا جاتا ہے۔ دین و دنیا کی ساری کامیابیاں اور بھلائیاں اسی علم پرموقوف ہیں۔
پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو بچوں میں عمر بھر کی معذوری پیدا کرتی ہے اس کا کوئی علاج نہیں مگر حفظ ما تقدم کے طور پر پولیو کے قطرے پلا کر ہم اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے نجات دلا سکتے ہیں اس کے علاوہ بچوں میں پیدا ہونے والی 9 دیگر بیماریاں بھی ہیں جو بچوں کی شرح اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، بچوں کا ان بیماریوں سے تحفظ اس وقت یقینی بنائی جا سکتی ہے جب ان بیماریوں کے خلاف انکی ویکسسینیشن ہوگی- بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اب بھی پولیو اور خسرہ جیسی بیماریاں دندناتے پھر رہی ہیں جہاں باقی دنیا نے ان بیماریوں پر قابو پا لیا ہے۔