چین اور بھارت کے تنازعات، ماضی اور مستقبل پرایک نظر

| وقتِ اشاعت :  


بھارت 1947اور چین 1949میں آزاد ہوا۔ ان دونوں نومولود ریاستوں کے مابین 1962میں ایک غیر حل شدہ سرحدی تنازعے کے باعث جنگ ہوئی۔ ایک آسٹریلین صحافی، نیوائل میکسول جو دہلی میں نمائندہ خصوصی کے طور پر کام کررہے تھے انہیں اس جنگ میں بھارت کی شکست سے متعلق خفیہ معلومات تک براہ راست رسائی حاصل ہوئی۔ 1970میں ان کی کتاب ”انڈیاز چائینا وار“ شایع ہوئی جسے آج بھی 1962کی چین بھارت جنگ کے بارے میں حوالہ تسلیم کیاجاتا ہے۔ بھارت نے نہ تو ان حقائق کو کبھی تسلیم کیا اور نہ اس شکست سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی۔



برطانوی ہندوستان میں جمہوریت اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

| وقتِ اشاعت :  


جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر ہوا کہ تقسیم بنگال کو لے کر کانگریس کی جانب سے سوَدیشی موومنٹ شروع ہو گئی۔ہر طرف گونج سنائی دینے لگی کہ یہ تو گاؤ ماتا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے rule and Divideکیا جا رہا ہے۔ کانگریس میں قیاس آرائیاں اور ابہام پیدا ہوا کہیں ہمارے خلاف سیاسی جماعتیں تو نہیں بنائی جا رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہندوستان کے مسلما نوں نے اپنا ایک سیاسی میکنیزم بنانے کے لیے جہد مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔مسلم لیگ کے قیام سے پہلے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں نے سیاسی پارٹیاں تشکیل دی تھیں جو کام بھی کر رہی تھیں۔



یونیورسٹیز کے آن لائن کلاس کے غور طلب نکات

| وقتِ اشاعت :  


جب سے چین کے شہر ووہان سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو بیمار کر گیا ہے۔اور لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔کرونا وائرس کے معاشی معاشرتی نفسیاتی اثرات کے علاوہ تعلیم پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کو تالے لگ چکے ہیں۔ اور علمی سلسلے جامد ہو چکے ہیں۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔کرونا وائرس کے تعلیمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن آف پاکستان نے ایک مثبت اقدام اٹھا کر آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا ہے۔ مختلف نیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔



تعلیم کا معیار

| وقتِ اشاعت :  


تعلیم کامیابی کی کنجی ہے اور ہمارے معاشرے میں ہر کوئی تعلیم حاصل کرتا ہے اور کوئی تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہے کیونکہ تعلیم سے ہی شعور بیدار ہوتا ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے، ان سے میٹرک پاس کرکے نکلنے والے طلبا کی قابلیت کو پرکھا جائے تو خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے برسوں سے مسلسل تعلیم کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں طلبا کا مستقبل بھی تاریکیوں میں کہیں کھو گیا ہے اور حالات اس نہج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ہر سال ملک کے چاروں صوبوں کے نویں اور دسویں جماعتوں کے امتحانی نتائج انتہائی مایوس کن ہوتے ہیں۔



شہید حاجی محمد عالم جتک سابق صدر انجمن تاجران خضدار

| وقتِ اشاعت :  


ہر انسان کو اپنے لئے اپنے خاندان و بچوں کے لئے زندہ رہنے و جینے کا پورا حق حاصل ہے مگر تاریخ میں زندہ وہی انسان رہتے ہیں جواپنی فانی زندگی میں دوسروں کے لئے زندہ رہتے ہیں دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں ان کے درد کا مداواہ بنتے ہیں،سنگین حالات کا مقابلہ کر کے قوم کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں ایسے افراد ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں ہوتے تو وہ بھی آسودہ خاک مگر ان کا کردار انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھتا ہے اور ایسا ہی ایک کردار انجمن تاجران خضدار کے اس وقت کے نائب صدر حاجی محمد عالم جتک کا بھی ہے ان کے کردار کے متعلق لکھتے ہوئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں قلم کی لرزش بڑھ جاتی ہے۔



قلم اگر بکا نہ ہو تو بلوچستان لکھو”

| وقتِ اشاعت :  


ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شخصیات اورچہروں کوپوجا جاتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو صرف اپنے لیے،آواز اٹھاتے ہیں اپنے مفاد کے لیے،پھر جب بول بول کر تھک جاتے ہیں تو سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ان پانچ ہزار ایک سو اٹھائیں سے بھی اوپر کی تعداد میں جو بلوچستان کے مسنگ پرسنز ہیں جن میں بچے، بزرگ، مرد اور خواتین بھی شامل ہیں ان کے گھر میں ماتم نہیں مچتا ہوگا؟ کیا ان کو کبھی سکون کی نیند نصیب ہوئی ہو گی؟ ان کا نوحہ بھی کوئی سن لے، ان کا درد بھی کوئی لکھے۔



(ضرب کلیم)

| وقتِ اشاعت :  


آج مذہب کے خلاف لکھنااور بولنااورمذہب کے ماننے والوں پر الزام تراشیاں کرناقابل فخر چیز سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ جس کو بھی کچھ لکھنے یا بولنے کی سدھ بدھ ہوجائے تواپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھ کر مذہب کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے،آج کل سوشل اور الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا وغیرہ میں مذہب اور مذہبی معتقدات پر بڑے شدو مد سے تنقید کی جارہی ہے،اور خدا کے وجود کاانکار کرکے اپنی من مانی زندگی گزاری جارہی ہے،اسی انکار خدا کی وجہ سے انسان اوج ثریا سے سے گر کر حیوانیت سے بدتر درجہ پر پہنچ چکی ہے۔



کیچ و گوادر “آل پارٹیز اتحاد”، آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

| وقتِ اشاعت :  


دنیا میں جماعتیں عوام کے زور بازو پر بنتی اور اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہیں،جب کسی جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو ان کا سرچشمہ و منبع عوام ہی ہوتی ہے۔کیونکہ عوام کے بغیر چند رہنماؤں کے وجود سے جماعتیں جماعت نہیں انجمن کہلاتی ہیں۔ جماعت بننے کے پہلے ہی جز میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ کیسے عوام کو اپنی طرف راغب کرنا ہے،عوامی مسائل کے حل کیلئے نعروں کے ساتھ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ان جماعتوں کے کرتا دھرتا عوام کے درمیان ہر وقت موجود رہ کے اپنائیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی عوامی جینوئن مسئلہ صرف ایک ذات کا نہیں۔



استاد کا کردار

| وقتِ اشاعت :  


اسلام میں استاد کا درجہ بہت بلند ہے اور معلم کا پیشہ پیغمبری پیشہ ہے استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت علی کا قول ہے،جس نے مجھے ایک حرف سکھایااس نے مجھے اپنا غلام بنایا۔ استاد وہ چراغ ہے جو ہر طرف روشنی پھیلاتا ہے جو شعور بیدار کرتا ہے صحیح اور غلط میں فرق بتاتا ہے۔ استاد وہ درخت ہے جو سایہ فراہم کرتا ہے یہ وہ جڑ ہے جو شاخوں کو مضبوط بناتا ہے جب بات کسی ہمہ جہت، بے مثال اور عزیز شخصیت کی ہو تو تحریر کا حق ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسی ہی ایک شخصیت میرے محترم استاد سر سید شاہد خان ہے استاد ہی اپنے شاگرد کی روحانی، دینی، علمی اور اخلاقی تربیت کرتا ہے میرا علم اور محدود ذخیرہ الفاظ ان کی شخصیت کو احاطہِ تحریر میں لانے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی چند سطور تحریر کرنے کی جسارت کررہی ہوں۔



پنجاب کے سیاستدانوں کی کرپشن حرام، بلوچستان کی حلال

| وقتِ اشاعت :  


آج نیب نے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود منی لانڈرنگ کیس،زائد اثاثہ جات بنانے کے الزام میں طلب کیا۔مسلم لیگ ن کے کارکن اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر کرونا ایس او پیز کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پہنچ گئے لیکن بلوچستان نیب کرونا کی وجہ سے قرنطینہ یا آئسولیشن میں ہے۔ الیکڑانک میڈیا،پرنٹ میڈیا کی زینت بننے والی کرپشن کی خبروں کے باوجود نیب بلوچستان کی خاموشی کیونکرہے۔ ایسے بھی سابق وزراء ہیں جن پر کروڑوں کے ناجائز اثاثہ جات بنانے،اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے کیسز ہیں۔