کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال معاشی اور سماجی خطرہ بن کر پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی ہے۔ سماجی رابطوں میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات لوگوں کے تحفظ کے لیے تو ضروری ہیں مگر اس سے معیشت، معمولات زندگی کے بعد سب سے زیادہ دنیا بھر کا تعلیمی نظام متاثر ہوا ہے،عالمی ادارے یونیسکو کی حالیہ رپور ٹ کے مطابق دنیا بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے جن میں تقریباً 74 کروڑ لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے گیارہ کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کا تعلق دنیا کے پس ماندہ ملکوں سے ہے۔
یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اخبارات میں ادارتی صفحات اس کی جان ہوتے ہیں لیکن اگر وہاں مختلف خیالات ونظریات کے بجائے ایک ہی موضوع کو مختلف عنوان دے کر شائع کیا گیا ہو تو پڑھنے کا مزہ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک اخبار میری نظر سے گزری کسی بھی اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنا میں فرض عین سمجھتا ہوں،شائع شدہ کالمز پہ نظر پڑی مختلف عنوان موضوع سب کا ایک۔اب بھلا کوئی کیوں اپنا وقت برباد کرے گا ایسے مضامین پڑھ کر اور اخبار میں بھی بڑے کروفر سے ان کالمز کو شائع کیا گیا، کیا ہمارے پاس سیاسی باتیں لکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔یہ حال صرف اس اخبار کا نہیں جو میرے ہاتھ لگی تھی ما سوائے چند کے سب کا یہی حال ہے۔
8 مئی کو تھیلیسمیا سے بچاؤ کے عالم دن کے طور پر منایا جاتا ہے تھیلیسمیا دراصل خون کی ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں خون کے خلیے جسمانی ضرورت کے مطابق آکسیجن کی مناسب مقدار سپلائی کرنے کے قابل نہیں ریتے جس کی وجہ سے خون کی مقدار جسمانی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتی کیونکہ بون میرو نارمل طریقے سے خون کے سرخ خلیے تیار کرنے کے قابل نہیں ہوتالہٰذا دل اوردیگر جسمانی اعضاء خون کی کمی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تھیلسمیا کے مریضوں میں خون کے سرخ خلیے کم تعداد میں بنتے ہیں اور ہموگلوبین کی مقدار ضرورت سے کم ہوتی ہے۔
اس عارضی دنیا میں کوئی بھی شے مستقل نہیں، انسانی تاریخ تبدیلی اور تغیرات سے بھرا پڑا ہے جو کہ جنگ، اصلاحات، انقلابوں، ایجادات، ٹیکنالوجی، سیاسی کشمکش و خانہ جنگی، تباکاریوں، قدرتی آفات، طوفان، موسمی بدلاؤ اور وباؤں کے پھوٹنے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، دنیا میں تبدیلی اور تغیر کی وجوہات جو بھی ہوں اسنے انسان کے لئے دکھ، مصائب، آزمائش، تکالیف یا پھر امن و آشتی، خوشحالی و فراغی ہی چھوڑا ہے- دونوں صورتوں میں صف اول میں کردار ادا کرنے والے جنگجو اور نجات دہندہ ہی حقیقی ہیرو کہلائے گئے ہیں جو تواریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔
پٹ فیڈر کینال بلوچستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یقینا اسی وجہ سے نصیرآباد صوبے کا گرین اور سرسبز و شاداب علاقہ کہلاتا ہے پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے نصیرآباد میں معاشی نمو میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے مقامی لوگ زراعت سے وابستہ ہونے اور زرعی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پٹ فیڈر کینال کی بدولت لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان اگر پٹ فیڈر کینال پر خصوصی توجہ دے تو پٹ فیڈر کینال کے باعث بلوچستان خوراک اور گندم کے حوالے سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی اضافی زرعی اجناس برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
تا ریخ واقعات کسی کو معاف نہیں کرتا جن لوگوں نے جدت کی بات کی مسلطوں سے بالا تر ہو کر سچا ئی کا علم بلند رکھا وہ امر ہو گئے آج بھی تا ریخ کے روشن ستارے اور تا ریخ کے انمول اثاثے ان کے افکا ر ان کے نظر یات اور فلسفہ روشنی کے وہ بلند مینا ر ہے جو معاشرے میں بنی نو ح انسان کی رہنما ئی کر تے چلے آرہے ہیں اورجمہو ر کے خلا ف تحریک کا سبب بنے اورنئے تخلیق اورجدت کا با عث بنے۔تا ریخ بتا تی ہے کہ گلیلو سچا تھا اس کی سچ کو کھتو لک چر چ نے جھٹلا کراسے کا فر قرار دیا لیکن تاریخ نے انھیں سچا ثا بت کیا۔سقراط نے زہر کا پیا لہ نوش کرکے یو نا ن کے طا قتور حکمر انوں کو تا ریخ کا تماچہ مارا آور امر ہو گے۔
کرونا وائرس نے معاشی طور پر دنیا کی معیشت کو تہ وبالا کردیا ہے۔دنیا کی مضبوط معاشی طاقتیں بھی اپنے آپ کو اس سے نہ بچاسکیں۔وائرس کی وجہ سے جہاں لوگ زندگی کو بچانے کے لیے گھروں میں قید ہیں۔ اس کے معاشی اور نفسیاتی اثرات اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی کمزور معیشت پر اس کے اثرات زیادہ خطرناک ہیں۔وطن عزیز ایک طرف قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام فاقوں پر مجبور ہے۔ ملک کے اندر غریب مڈل کلاس اور تاجروں کو یکساں طور پر کنگال کررہا ہے۔
کیاکوئی ایسی حکومتی کسوٹی،کوئی ایساپیمانہ یاکوئی ایساسافٹ وئیرہے جوان سفید پوش محنت کشوں اورمزدوروں کے دلوں پر بھوک کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھ سکیں،ان کے بارے میں سوچ سکیں انسان خطرناک اورجدیدترین توپ و اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ دشمنوں کی افواج کے حملے کی پیش بندی کرسکتاہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکرڈٹ کرمردانہ واراسکامقابلہ کر سکتا ہے لیکن ناگہانی آفات اوراچانک پھیلنے والے وبائی امراض کامقابلہ کرناآسان کام نہیں ہوتا،اس کی واضح مثال یورپ میں تیرہویں صدی میں پھیلنے والی طاعون کی وباء ہے جس نے اندازاََ 75 سے 200ملین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔
بلوچستان کا رقبہ ملک کی 47 فیصد پر مشتمل ہے بدقسمتی سے بلوچستان ان 74سالوں میں وہ ترقی کی منازل حاصل نہ کر سکا جو کرنا چاہئے تھا اس کا ذمہ دار وفاق سمیت ہمارے ارباب اختیار منتخب نمائندے بھی ہیں۔ بلوچستان میں 18 ویں ترمیم سے پہلے ہمارا صوبہ ہر وقت اوور ڈرافٹ پر ہی چلتا تھا اور تنخواہ تک کیلئے وفاق کی منت سماجت کرتا تھا۔ 18 ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کو جو ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں وہ شاید ملک کے دیگر صوبوں کے ایم پی ایز کو نہ ملتا ہو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ہر ایم پی ایے کو چالیس سے پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملتے ہیں جبکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی اس کے علاوہ ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی نہ تو پسماندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور نہ ہی صوبے کے عوام کی محرومیاں ختم ہو رہی ہیں۔