پٹ فیڈر کینال بلوچستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یقینا اسی وجہ سے نصیرآباد صوبے کا گرین اور سرسبز و شاداب علاقہ کہلاتا ہے پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے نصیرآباد میں معاشی نمو میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے مقامی لوگ زراعت سے وابستہ ہونے اور زرعی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پٹ فیڈر کینال کی بدولت لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان اگر پٹ فیڈر کینال پر خصوصی توجہ دے تو پٹ فیڈر کینال کے باعث بلوچستان خوراک اور گندم کے حوالے سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی اضافی زرعی اجناس برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
تا ریخ واقعات کسی کو معاف نہیں کرتا جن لوگوں نے جدت کی بات کی مسلطوں سے بالا تر ہو کر سچا ئی کا علم بلند رکھا وہ امر ہو گئے آج بھی تا ریخ کے روشن ستارے اور تا ریخ کے انمول اثاثے ان کے افکا ر ان کے نظر یات اور فلسفہ روشنی کے وہ بلند مینا ر ہے جو معاشرے میں بنی نو ح انسان کی رہنما ئی کر تے چلے آرہے ہیں اورجمہو ر کے خلا ف تحریک کا سبب بنے اورنئے تخلیق اورجدت کا با عث بنے۔تا ریخ بتا تی ہے کہ گلیلو سچا تھا اس کی سچ کو کھتو لک چر چ نے جھٹلا کراسے کا فر قرار دیا لیکن تاریخ نے انھیں سچا ثا بت کیا۔سقراط نے زہر کا پیا لہ نوش کرکے یو نا ن کے طا قتور حکمر انوں کو تا ریخ کا تماچہ مارا آور امر ہو گے۔
کرونا وائرس نے معاشی طور پر دنیا کی معیشت کو تہ وبالا کردیا ہے۔دنیا کی مضبوط معاشی طاقتیں بھی اپنے آپ کو اس سے نہ بچاسکیں۔وائرس کی وجہ سے جہاں لوگ زندگی کو بچانے کے لیے گھروں میں قید ہیں۔ اس کے معاشی اور نفسیاتی اثرات اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی کمزور معیشت پر اس کے اثرات زیادہ خطرناک ہیں۔وطن عزیز ایک طرف قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام فاقوں پر مجبور ہے۔ ملک کے اندر غریب مڈل کلاس اور تاجروں کو یکساں طور پر کنگال کررہا ہے۔
کیاکوئی ایسی حکومتی کسوٹی،کوئی ایساپیمانہ یاکوئی ایساسافٹ وئیرہے جوان سفید پوش محنت کشوں اورمزدوروں کے دلوں پر بھوک کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھ سکیں،ان کے بارے میں سوچ سکیں انسان خطرناک اورجدیدترین توپ و اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ دشمنوں کی افواج کے حملے کی پیش بندی کرسکتاہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکرڈٹ کرمردانہ واراسکامقابلہ کر سکتا ہے لیکن ناگہانی آفات اوراچانک پھیلنے والے وبائی امراض کامقابلہ کرناآسان کام نہیں ہوتا،اس کی واضح مثال یورپ میں تیرہویں صدی میں پھیلنے والی طاعون کی وباء ہے جس نے اندازاََ 75 سے 200ملین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔
بلوچستان کا رقبہ ملک کی 47 فیصد پر مشتمل ہے بدقسمتی سے بلوچستان ان 74سالوں میں وہ ترقی کی منازل حاصل نہ کر سکا جو کرنا چاہئے تھا اس کا ذمہ دار وفاق سمیت ہمارے ارباب اختیار منتخب نمائندے بھی ہیں۔ بلوچستان میں 18 ویں ترمیم سے پہلے ہمارا صوبہ ہر وقت اوور ڈرافٹ پر ہی چلتا تھا اور تنخواہ تک کیلئے وفاق کی منت سماجت کرتا تھا۔ 18 ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کو جو ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں وہ شاید ملک کے دیگر صوبوں کے ایم پی ایز کو نہ ملتا ہو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ہر ایم پی ایے کو چالیس سے پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملتے ہیں جبکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی اس کے علاوہ ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی نہ تو پسماندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور نہ ہی صوبے کے عوام کی محرومیاں ختم ہو رہی ہیں۔
تا ریخ واقعات کسی کو معاف نہیں کرتا جن لوگوں نے جدت کی بات کی مسلطوں سے بالا تر ہو کر سچا ئی کا علم بلند رکھا وہ امر ہو گئے آج بھی تا ریخ کے روشن ستارے اور تا ریخ کے انمول اثاثے ان کے افکا ر ان کے نظر یات اور فلسفہ روشنی کے وہ بلند مینا ر ہے جو معاشرے میں بنی نو ح انسان کی رہنما ئی کر تے چلے آرہے ہیں اورجمہو ر کے خلا ف تحریک کا سبب بنے اورنئے تخلیق اورجدت کا با عث بنے۔تا ریخ بتا تی ہے کہ گلیلو سچا تھا اس کی سچ کو کھتو لک چر چ نے جھٹلا کراسے کا فر قرار دیا لیکن تاریخ نے انھیں سچا ثا بت کیا۔سقراط نے زہر کا پیا لہ نوش کرکے یو نا ن کے طا قتور حکمر انوں کو تا ریخ کا تماچہ مارا آور امر ہو گے۔
چین کامیاب پالیسی اور حکمت عملی کی بدولت کرونا جیسی وبائی مرض کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوا اور اب ووہان کے ہسپتالوں سے آخری مریض بھی شفایاب ہوکر رخصت ہوچکا ہے،لیکن اس مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،ترقی پذیر ملکوں سے لے کر ترقی یافتہ ممالک بھی اسکی لپیٹ میں آگئے اور اب لاکھوں کی تعداد میں مریض اس میں مبتلا ہوگئے۔باقی دنیا کے برخلاف پاکستان میں اب تک یہ مرض اس تیزی سے نہیں پھیلا ہے۔حالا نکہ ذائرین اس وقت شروع ہوئی جب ایران اس کی زد میں آچکا تھا۔ صوبہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں اب تک سب سے کم مریضوں میں اس مرض کی تشخیص ہوئی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک بوڑھا شخص دیکھا جو لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے سے کہا کیا آپ کو بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟اس نے کہا کہ مجھے وظیفہ مل رہا ہے لیکن میں یہودی ذمی ہو ں حکومت مجھ سے سالانہ جذیہ لے رہی ہے میں کمزور ہو ں مزدوری نہیں کرسکتا تو اس کی ادائیگی کے لئے سال میں ایک دفعہ لوگ سے مانگ کر حکومت کو جمع کرتا ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ سوال نہ کرو کل میر ے پاس آجاؤ۔
دنیا میں سب سے زیادہ کام کی چیز چمچہ ہے کیوں کہ چمچے کے بغیر کوئی چیز تیار کرنا بہت مشکل ہے۔ دنیا میں کھانے کی ہر چیز چمچے سے تیار ہوتی ہے۔ ان چمچوں نے آج کل کے دور میں بہت ترقی کی ہے، جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ہر آفیسر، بیورو کریٹ اپنے ساتھ اپنا ایک چمچہ رکھتا ہے۔ وہ چمچہ انسانی شکل میں ہوتا ہے اور وہ چمچہ صاحب تک پہنچانے کا آسان حل ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنی ان چمچوں نے ترقی کی شاید کسی اور نے نہیں کی ہوگی۔ اب تو یہ چمچے ہر گلی ہر محلے سے نکل کر ہر آفس تک آپ کو مختلف شکلوں میں ملیں گے۔
رمضان کے متعلق یہ تصور بہت عام ہوچکا ہے کہ اس مہینے میں خوب خوب نفل نمازیں پڑھی جائیں، اسی طرح خوب خوب تلاوت قرآن کی جائے، اور باقی اوقات دعا، تسبیح، اور اذکار میں گزارے جائیں، اوراس کے علاوہ کچھ صدقہ وانفاق کردیا جائے۔ اور یہ سب اس لیے ہو کہ ہمارے کھاتے میں زیادہ سے زیادہ ثواب جمع ہوجائے اور ہمیں جنت کا پروانہ نصیب ہوجائے۔ یقیناًیہ روزہ کا انتہائی محدود اور ناقص تصور ہے۔ اس تصور کا نقص یہ ہے کہ اس کے ذریعہ بندہ پر اپنا ذاتی نفع اور ذاتی کامیابی کا پہلو غالب رہتا ہے۔