اس وقت پوری دنیا ایک جان لیوا مرض کا شکار ہے پوری دنیا خوف کا شکار ہے اورمعیشت کچھ حد تک تباہ ہو چکی ہے اس مرض سے ہر طبقہ متاثر ہو چکا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی امداد کے لئے پکار رہے ہیں۔اور یہ مرض دنیا میں بہت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔اس کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی داوا دریافت نہیں ہوئی ہیاس سے بچنے کا واحد حل گھروں میں رہنا اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔بظاہر تو یہ اتنا مشکل کام نہیں لگاتا ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لیے بہت مسئلہ اور پریشانی کا سبب ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کمائی کر کے اپنے گھروں کو چلاتے ہیں۔
ماری پور ٹکری ولیج کراچی کا ایک پسماندہ ترین اور نظر انداز ترین علاقہ ہے۔یہاں کے عوام کے اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔جبکہ دو صدیوں سے آباد علاقے کے باشندے صحت، تعلیم اور ضروریات زندگی کی سہولتوں سے یکسر محروم ہے۔بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اپنی جگہ لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ ٹکری ولیج کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں اگر انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے کسی بھی شعبے میں سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ نوجوان قوم اور ملک و ملت کے لئے ایک اہم اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔جس طرح ٹکری کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپکے تحت اپنے عوام کو تعلیم دینے کی غرض سے ٹکری ایجوکیشن سینٹر کی بنیاد رکھی جو ٹکری کے عوام کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں ہے اسی طرح اسپورٹس کے میدان میں نوجوانوں نے اپنی مدد آپکے تحت علاقے کے بچوں کی ٹریننگ کا انتظام کیا۔
جیسا کہ ہم سب تنگ و پریشان آچکے ہیں کرونا وائرس کے میسجز سے جو کہ,24/7 پھیل رہے ہیں پر جو بات میں کہنا چاہ رہی ہو وہ ان سے کہیں زیادہ اہمیّت کے حامل ہیں جیسا ہم سب جان چکے ہیں سماجی فاصلہ رکھنا اور رہاتھوں کو دھونا دونوں ہی مل کرکرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کافی مددگار ثابت ہورہے ہیں پر جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے جسم کے درجہ حرارت اور باہر کے درجہ حرارت میں فرق ہے باہر ٹھنڈی ہوائیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی وائرس بہت جلدی پھیل جاتا ہے اور ایک دوسرے کے قریب رہنے سے آسانی سے لگ جاتا ہے۔مگر تین ایسی معلوماتی حقیقت ہیں جس کے بارے میں آگاہی حاصل کر کے ہم کئی وائرس سے بچنے کے لئے بہت سارے اقدامات کر سکتے ہیں۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ ذوالفقار بھٹو کا دور حکومت کئی حوالوں سے نمایاں رہا ان میں ان کی روشن خیالی‘ سماجی پروگرامز اور دانشمندانہ خارجہ پالیسی شامل ہیں۔ لیکن انہیں اپنی کچھ غلطیوں کی وجہ سے کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کی شخصیت ایسی تھی کہ یا تو آپ کو ان سے بے پناہ محبت ہو جاتی یا شدید نفرت۔
21فروری جمعہ شام 7بجے عظیم مارکسی مفکر اور سوشلسٹ انقلابی کامریڈ لال خان ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک عہد کا نام تھا۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی بائیں بازو کی سیاست کا آغاز کیا۔ جنرل ضیاء کی وحشی آمریت کے دوران قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن اپنے عزم میں متزلزل نہیں ہوئے۔ اس دوران انہیں یورپ میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی جہاں ان کی ملاقات کامریڈ ٹیڈ گرانٹ سے ہوئی اوریوں حقیقی مارکسی نظریات سے آشنائی ہوئی۔ وہ کامریڈ ٹیڈگرانٹ کو اپنا استاد سمجھتے تھے جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔
کچھ دنوں سے عراق میں بغاوت کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ 3جنوری2020ء کوقاسم سلیمانی پر ہونے والے حملے کے بعد سے عراق، ایران امریکہ کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب جبکہ پوری دنیا کو کرونا کی صورت میں ایک قہر کا سامنا ہے خصوصاََ امریکہ اور اٹلی تباہی کے دہانے پر ہیں۔عراق میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے،امریکہ پہلے ہی عراق سے انخلا ء کا اعلان کر چکا ہے۔عراق میں امریکہ کے زیرِ استعمال 8فوجی اڈے ہیں۔ پہلے مرحلے میں امریکہ نے3فوجی اڈے خالی کرنے کا اعلان کیا تھا جن میں صوبہ الانبار کے شہرالقائم میں ایک فوجی اڈہ اوردوسرا الجبانیہ فوجی اڈہ خالی کر دیا گیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب امریکہ سپر پاور کہلاتا تھا تو کچھ ممالک اس کا انکار کرتے تھے کیوں کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اس لیے دنیا کی اکثریت اس کے سامنے بے بس تھی لیکن اب ایک ایسی طاقت ابھری ہے جس کے سامنے امریکہ بھی بے بس ہے۔ سپر پاور کی دوڑ میں چین اور روس بھی تھے۔اسی لیے انھیں امریکہ کے روایتی حریف کہا جاتا ہے،اس بات پر خصوصاً3 ممالک میں جھگڑا چلتا آیا ہے،اسی سپر پاور کی کرسی کے جھگڑے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کئی بار تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچا ہے کیوں کہ ایران امریکہ کے سپر پاور ہونے کا انکار کرتا آیا ہے۔لیکن اس بات میں کچھ شک نہیں کہ سپر پاور کی کرسی امریکہ کے پاس ہے۔امریکہ سپر پاور کے نام سے جانا جاتا ہے کیوں کہ امریکہ کے پاس دفاع اور معیشت کی صورت میں دو اہم ہتھیار ہیں۔روس ہمیشہ سے امریکہ پر اسلحے کی دوڑ میں سبقت لیجانے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ چین معاشی لحاظ سے امریکہ سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا رہا ہے تاکہ سپر پاور کی کرسی حاصل کی جائے۔
ہر طرف ویرانی سی ہے اور چار سْو خاموشی چھائی ہوئی ہے،نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ میں حیران و پریشان اپنے دل و دماغ کو جھنجھوڑنے لگا کہ کیا میں واقعی انسانوں کی دنیا میں ہوں؟ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے چاروں طرف نظر دوڑائی تو عمارتیں انسانوں کی سی لگیں یعنی کہ انسانوں کی بنائی ہوئی اور انسانوں کی رہائشی عمارتیں اور جس روڈ پر میں اپنے پیروں کو جنبش دے کر حیرانگی کی کیفیت میں بڑی آہستگی کے ساتھ آگے کی سمت رواں ہوں وہ روڈ بھی انسانوں کی بنائی ہوئی لگ رہی ہے۔
چین کے شہر اوہان سے جنم لینے والا کورونا وائرس نے نہ صرف چین بلکہ ایران، افغانستان، پاکستان، امریکہ، اٹلی، یورپی،افریقی،عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے 200سے زائد ممالک میں اپنا زور دکھایا۔ سال2019کے آخری ماہ سے کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ عالمی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں 8لاکھ 76ہزار،3سو سے زائد تصدیق شدہ مریض موجود ہیں اور تقریباً 43ہزار5سو سے زائد افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور 1لاکھ84ہزار 9سو سے زائد افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا ایک وباء کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے نمٹنے کا واحد ذریعہ گھروں میں رہنا قرار پا چکا ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں دفاتر تک رسائی ناممکن ہے آپ کی توجہ بذریعہ کھلا خط ایک اہم اور حل طلب مسئلے کی جانب لے جانا چاہوں گا۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ موجودہ وباء سے قبل 2013کو آواران کو ایک بڑے قدرتی آفت کا زلزلے کی شکل میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس آفت کے نتیجے میں سیکڑوں جانیں چلی گئیں تھیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔