تحریک انصاف کی حکومت کی 25 جولائی کو پہلی سالگرہ تھی یہ دن حکومت نے یوم تشکر جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ کے طور پر منا یا،اپوزیشن نے چاروں دارالحکومتوں میں جلسے منعقد کئے،شیڈول کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت میں بھی جلسہ منعقد ہوا،کوئٹہ میں جلسہ بظاہر تو آل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے رکھا گیا تھا لیکن جلسے کے دوران مریم نواز نے محمود خان اچکزئی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ عیاں کردیاکہ در اصل محمود خان اچکزئی نے مریم نواز کو کوئٹہ میں جلسہ کرانے کی خصوصی دعوت دی تھی۔
وہ تعلیم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں وہ بالکل بھی کافی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہی ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت عطا کر رہی ہے۔ ہم تعلیم حاصل کر کے بھی اسی پرانی اور بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہئے تھا۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر اسی ساس بہو کے نظریے کے ساتھ چلتی ہیں اور وہیں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اور ہمارے مرد آپ انہیں دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دو، وہ وہی گالیوں بھری زبان لیے پھرتے ہونگے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہونگے۔ کیونکہ ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم جیسے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی باہر نکل جاتے ہیں ذرا برابر فرق لیے بغیر۔
قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے بنیادی رہا ہے۔ اور یہ قانون فطرت بن چکا ہے کہ جس قوم نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی دنیا کی حکمرانی کا حق بھی اسی کو عطا ہوا۔تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔قیام پاکستان کے بعد کئی عشروں تک تعلیم بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں رہی،جب ترجیحات میں شامل کی گئی تو نظام تعلیم کو تب سے اب تک بہتر نہیں کیا جا سکا۔
ماضی میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نہ جانے کتنے کیمپ لگے، کتنے کیمپ زمینی خداؤں کی زد میں آکر اکھڑ گئے، کتنے لوگ کیمپوں کی ضرورت بنے، کتنی وعدے وعیدیں ہوئیں، کتنے لوگوں کو بھوک ہڑتال پہ بیٹھنا پڑا،نہ جانے کتنے لوگوں کو حکومتی یقین دہانی پر جوس پی کر احتجاجی کیمپ ختم کرنا پڑا۔ کیمپ لگے،ختم ہوئے۔ کچھ کے مسائل ختم ہوئے بہت سوں کے ابھی تک باقی ہیں۔ یہ سب منظرنامے کوئٹہ پریس کلب نے اپنی آنکھوں میں قید کر لیے۔ پریس کلب کے سامنے اور آس پاس اس وقت چار کیمپ قائم ہیں قدیم کیمپ لاپتہ افراد کے لیے لگائے جانے والے ماما قدیر کی ہے۔
ِ ضرب المثل ہے، آ بیل مجھے مار ، کوئی بندہ اپنے آپ کو مصیبتوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ مڈبھیڑ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جو بداخلاقی کا مرتکب ہو۔بات اگر بلوچستان کے شاہراہوں کی ہو تو ان سے ہر کوئی پناہ مانگتا پھرے مگر پھر بھی پناہ نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔۔ قتلِ عام روز یہاں جاری ہے۔ دھندناتا پھرتا ہوا یہ قاتل کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا سب ہی اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
سڑکوں کے آس پاس بیلچہ اور کدال لیے کھڑے یہ لوگ آخر کون اور کس کے منتظر ہیں؟ جب سرمایہ دار کی گاڑی ان کے قریب آکر رکتی ہے تو یہ سب گاڑی کو گھیر کر اپنے آپ کو پیش کرنے لگتے ہیں۔۔ تو ایسے موقع پر ہوتا کیا ہے۔۔ بس ہونا کیا ہے کہ سرمایہ دار اس مزدور کا انتخاب کرتا ہے جو بہت ہی کم اجرت پر پوری دن مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو۔ ان کی آنکھوں میں سوائے عسرت کے اور کچھ نہیں دکھا ئی دیتی۔
تعلیم و تزکیہ کار انبیاء کرام ہیں۔ قرآن حکیم کا آغاز ”اقراء“ پڑھنے، سمجھنے، اخذ کرنے، قبول کرنے اور اپنے آپ کو بدلنے و سنبھالنے کے ہیں۔ ”تزکیہ“ نشوونما اور پاکیزگی اختیار کرنے اور قبول کرکے مسلسل جاری و اہتمام رکھنے کو کہتے ہیں۔
بلوچستان میں آج کل ہر طرف جلسے،جلوس اور دھرنوں کی ریل پیل ہے۔ حکمرانوں کو یہ ریل پیل کم جبکہ راہ چلتے لوگوں کوزیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ خود پہ طاری گزشتہ ایک ماہ کی خودساختہ بندشوں سے آزادی پاتے ہی نظریں جب کوئٹہ کی مین شاہراہوں پر پڑیں تو سڑکیں سراپا احتجاج بن چکی تھیں۔ حکومت کے خلاف نعروں کو شاید ہی بند کانوں نے نہ سنا ہو مگر کوئٹہ کے در و دیواروں نے یہ آواز اپنے اندر محفوظ کر لیے۔ اساتذہ احتجاج پر، ڈاکٹر احتجاج پر، طلبا ء احتجاج پر، فارماسسٹس احتجاج پر، انجینیئرز احتجاج پر۔ غرض چاروں طرف احتجاجی مظاہروں کے درمیان حکومت مخالف نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
29 جون کو پاکستان نیول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ دیکھنے کا اتفاق ہوا، نظم و ضبط اور انتظامات تو لاجواب تھے ہی مگر تربیتی معیار، اس سلسلے میں انتظامیہ کی کاوشیں اور کیڈٹس کا عمل بھی قابل تحسین تھے۔خوشگوار حیرت کے کئی در تھے جو پے در پے وا ہوتے گئے پا،کستان نیول اکیڈمی کی 111 ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے مہمان خصوصی کمانڈر رائل سعودی نیول فورسز وائس ایڈمرل فہد بن عبداللہ الغوفیلی تھے جنہوں نے اپنی ابتدائی تربیت پاکستان نیول اکیڈمی سے حاصل کی۔
یہ سفر اتنا طویل تو نہیں ہے چند دنوں کی بات ہے کہ جب بلوچستان کے نوجوان ایک نئے مستقبل اور زندگی کی سب سے اہم مرحلے کا آغاز کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ پھولے سما نہیں رہے تھے کہ اب وہ میڈیکل کی کتاب اور سفید کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں Stethoscope لے کر اس کلاس میں اپنا پہلا قدم رکھیں گے جہاں انسانیت کی خدمت کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، جہاں مسیحا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے جنہیں ہم عرفِ عام میں“ڈاکٹر”کا نام دیتے ہیں۔