اتنا سب کچھ ہضم کیسے کر سکتے ہیں

| وقتِ اشاعت :  


دن بھر انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑے رہنے کے دوران آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلومات کا کون کون سا خزانہ آپ نے چھان مارا ہے اور وہ کون کون سے ذراءع تھے جنہیں نظر انداز کر گئے،انٹر نیٹ کی دنیا ہی ایسی ہے ۔ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا یہ کہ جو کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے کچھ سے جانکاری اور کچھ سے انجان بن جاتے ہیں اپنی فطرت کے حساب سے وہ سب کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔



بلوچستان کی لیبارٹری میں سیاسی تجربے

| وقتِ اشاعت :  


مولانا صاحب کوئٹہ آئے, پاور شو دکھا کر چلے گئے اس پاور شو میں وہ اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ عمران خان کا دھرنا یاد آگیا۔ بلوچستان میں پاور شو دکھانے کا مقصد کیا تھا یہ خدا جانے۔ جلسے کا مجمع دیکھ کر پہلے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیانگاہیں دھندلا گئیں بڑی مشکل سے آنکھوں کو یقین دلایا ورنہ یقین کرنے یا نہ کرنے سے کیا جائے گا۔ سب لوگوں نے اعتراف کیا کہ کوئٹہ کی سطح پر یہ بڑا پاور شو تھا مولانا صاحب نے عمران خان کو اسی انداز میں للکارا جس انداز میں عمران خان نواز حکومت کو للکار چکے تھے۔



ریکوڈک کا قضیہ اور بلوچستان کی محرومیاں

| وقتِ اشاعت :  


ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کیس میں تقریباً6ارب ڈالر ہر جانے کی ادائیگی کے انٹر نیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آن انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کے فیصلے نے ارباب اختیار کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے افغانستان و ایران کے سنگم پر واقع بلوچستان کے سرحدی شہر چاغی کے ریکوڈ ک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جس میں اب بھی ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اور جیالوجیکل سروے کے مطابق ریکوڈک سے روزانہ 15ہزار ٹن سونا اور تانبا نکالا جاسکتا ہے جس سے پسماندگی اور افلاس کے شکار بلوچستان اور قرضوں میں ڈوبے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمد ن ہو سکتی ہے۔



اخبارات کے ذائقے بدل گئے یا

| وقتِ اشاعت :  


منان چوک جناح پر اخبارات اور کتابوں کا ایک چھوٹا سا دکان جان بک اسٹال ہوا کرتا تھا۔کتابوں کے ساتھ ساتھ یہ اسٹال دنیا بھر کی معلومات کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ اخبارات سے آنکھیں دو چار ہوتے ہی گاہک اسٹال کی جانب لپک پڑتے، سرخیاں چھان مارتے ہوئے جو اخبار پرکشش معلوم ہوتی وہ خریدار کے حصے میں آتا۔ اخبارات اور کتابوں کی جگہ اب وہاں ایک موبائل کمیونیکیشن سینٹر نے لی ہے۔



پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور

| وقتِ اشاعت :  


ہر ملک اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے ممالک سے تعلقات رکھتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوطی سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے مگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اکثر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ جسکی وجہ امریکہ کا صرف اپنے مفادات کو ہی اہمیت دینا ہوتا ہے۔



مستقبل کاسیاسی منظر۔۔۔۔۔۔!

| وقتِ اشاعت :  


تحریک انصاف کی حکومت کی 25 جولائی کو پہلی سالگرہ تھی یہ دن حکومت نے یوم تشکر جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ کے طور پر منا یا،اپوزیشن نے چاروں دارالحکومتوں میں جلسے منعقد کئے،شیڈول کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت میں بھی جلسہ منعقد ہوا،کوئٹہ میں جلسہ بظاہر تو آل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے رکھا گیا تھا لیکن جلسے کے دوران مریم نواز نے محمود خان اچکزئی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ عیاں کردیاکہ در اصل محمود خان اچکزئی نے مریم نواز کو کوئٹہ میں جلسہ کرانے کی خصوصی دعوت دی تھی۔



تعلیم فقط نمبروں کی دوڑ

| وقتِ اشاعت :  


وہ تعلیم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں وہ بالکل بھی کافی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہی ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت عطا کر رہی ہے۔ ہم تعلیم حاصل کر کے بھی اسی پرانی اور بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہئے تھا۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر اسی ساس بہو کے نظریے کے ساتھ چلتی ہیں اور وہیں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اور ہمارے مرد آپ انہیں دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دو، وہ وہی گالیوں بھری زبان لیے پھرتے ہونگے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہونگے۔ کیونکہ ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم جیسے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی باہر نکل جاتے ہیں ذرا برابر فرق لیے بغیر۔



بلوچستان کے بچے تعلیم سے محروم کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے بنیادی رہا ہے۔ اور یہ قانون فطرت بن چکا ہے کہ جس قوم نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی دنیا کی حکمرانی کا حق بھی اسی کو عطا ہوا۔تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔قیام پاکستان کے بعد کئی عشروں تک تعلیم بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں رہی،جب ترجیحات میں شامل کی گئی تو نظام تعلیم کو تب سے اب تک بہتر نہیں کیا جا سکا۔



احتجاج پہ بیٹھے طلبہ چاہتے کیا ہیں؟

| وقتِ اشاعت :  


ماضی میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نہ جانے کتنے کیمپ لگے، کتنے کیمپ زمینی خداؤں کی زد میں آکر اکھڑ گئے، کتنے لوگ کیمپوں کی ضرورت بنے، کتنی وعدے وعیدیں ہوئیں، کتنے لوگوں کو بھوک ہڑتال پہ بیٹھنا پڑا،نہ جانے کتنے لوگوں کو حکومتی یقین دہانی پر جوس پی کر احتجاجی کیمپ ختم کرنا پڑا۔ کیمپ لگے،ختم ہوئے۔ کچھ کے مسائل ختم ہوئے بہت سوں کے ابھی تک باقی ہیں۔ یہ سب منظرنامے کوئٹہ پریس کلب نے اپنی آنکھوں میں قید کر لیے۔ پریس کلب کے سامنے اور آس پاس اس وقت چار کیمپ قائم ہیں قدیم کیمپ لاپتہ افراد کے لیے لگائے جانے والے ماما قدیر کی ہے۔



بلوچستان کی قاتل شاہراہوں سے مجھے کون بچائے گا؟

| وقتِ اشاعت :  


ِ ضرب المثل ہے، آ بیل مجھے مار ، کوئی بندہ اپنے آپ کو مصیبتوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ مڈبھیڑ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جو بداخلاقی کا مرتکب ہو۔بات اگر بلوچستان کے شاہراہوں کی ہو تو ان سے ہر کوئی پناہ مانگتا پھرے مگر پھر بھی پناہ نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔۔ قتلِ عام روز یہاں جاری ہے۔ دھندناتا پھرتا ہوا یہ قاتل کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا سب ہی اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔