|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2019

دن بھر انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑے رہنے کے دوران آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلومات کا کون کون سا خزانہ آپ نے چھان مارا ہے اور وہ کون کون سے ذراءع تھے جنہیں نظر انداز کر گئے،انٹر نیٹ کی دنیا ہی ایسی ہے ۔ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا یہ کہ جو کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے کچھ سے جانکاری اور کچھ سے انجان بن جاتے ہیں اپنی فطرت کے حساب سے وہ سب کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔

جو آپ کے ذہن سے مکالمہ کر سکے ۔ جدید ٹیکنالوجی نے اب بہت کچھ آپ کی دسترس میں کر دیا ہے سوائے فرصت کے، وہ لوگ جو کسی زمانے میں وقت گزاری کے لیے محفلیں سجاتے تھے، فل میں دیکھتے، یا سیر سپاٹے کے لیے نکل پڑتے ۔ اب وقت ہے کہ بھاگتا ہی چلا جا رہا ہے اور آپ ہیں کہ وقت کو کھینچتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ;238; میرے خیال میں اس سے متعلق اب شاید سوچ و بچار کا وقت کم رہ گیا ہے ۔
 
جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ موبائل اور اس میں انٹرنیٹ کی دنیا اگر آپ کے پاس ہے تو سمجھ لیں کہ پوری دنیا آپ کی مٹھی میں بند ہے مگر جیسے ہی آپ بند مٹھی کھول کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیتے ہیں تو آپ ہی اس کی مٹھی میں چلے جائیں گے اور نکل نہیں پائیں گے ۔ اس وسیع سمندر میں جتنا بھی غوطہ لگاتے جائیں تہہ تک نہیں پہنچ پاتے، شروع میں یہ آپ کو ایک ندی کے مانند محسوس ہوگا پھر دریا، دریا سے آگے سمندر، پھر پوری کائنات یا اس سے کہیں زیادہ اوپر ۔ بشرطیکہ آپ غوطہ خوری میں ماہر ہوں ورنہ یہ سمندر اتنا گہرا ہے کہ تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں واپسی کا راستہ ہی بھول جائیں ۔
 
ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کے پاس معلومات کے ذراءع نہ ہونے کے برابر تھے ۔ خبری ذراءع مسافروں کے ذریعے پہنچ جایا کرتے تھے یا خبررساں لوگوں کے ذریعے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو خبر یا معلومات کو ٹیکنیکل انداز میں پیش کر کے انعام پاتے تھے ۔ کم ذراءع دستیاب ہونے کی وجہ سے معلومات تک رسائی حاصل کرنے، کھوج لگانے یا تحقیق کرنے میں اتنی دشواری ہوتی تھی کہ لوگوں کو خبررساں افراد یا مسافروں کی باتوں پر یقین ہی کرنا پڑتا تھا چاہے ۔
 
وہ معلومات پروپیگنڈہ یا جھوٹ پر مبنی ہی کیوں نہ ہوتیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی جدتوں اور ایجادات نے معلومات کو انسانی دسترس میں رکھ دیا ۔ ذراءع ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی سے نکل کر اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں آچکے ہیں معلومات کا تبادلہ سیکنڈوں کے حساب سے ہو رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پیجز کو جتنا اسکرول کرتے چلے جائیں اس کی آخری حد تک نہیں پہنچ پاتے، کیوں ;238; کیونکہمعلومات کا ایک سیلاب امڈ کر آیا ہے ۔
 
مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ آخر اس تیزی سے معلومات کا تبادلہ کیوں کر ہو رہا ہے ۔ دنیا کے کونے میں بیٹھا ایک عام آدمی بھی معلومات کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ اب معلومات کے بہاوَ اتنی تیزی آچکی ہے کہ صبح کی خبر سفر طے کرتے کرتے شام تک باسی ہوجاتی ہے ۔ ہم اس وقت گلوبل ولیج کے اندر رہ رہے ہیں گلوبل ولیج کی اس دنیا میں بیٹھے بیٹھے ہم نے کئی محاذوں پر مورچے سنبھال رکھے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ دوست کون ہے ۔
 
اور دشمن کون، کہیں انہی مورچوں کے اندر بیٹھے ہم آسان ہدف تو نہیں بن رہے یا ہمارے اہداف میں کون کون شامل ہیں یہ ایک ایسا فینومینا ہے کہ اسے نہ ہم سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی ہمارے آس پاس کی دنیا ۔ فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، انسٹاگرام، وٹس ایپ اور نہ جانے اور کتنی سوشل میڈیا کے ایپلیکیشن مقابلے کے میدان میں اپنی طاقت کے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں ۔ ٹویٹس، پوسٹ، کمنٹس کا ایسا سیلاب آچکا ہے کہ آدمی دن بھر ان پر نگاہ کرم صرف فرمائے تو بھی نہیں پہنچ پاتا ۔
 
دن بھرسوشل میڈیا سے جڑے آپ نے کتنے معلومات تک رسائی حاصل کی یا کتنی خبروں سے واسطہ پڑا، کتنے خیالات ذہن میں آشکار ہوئے اور نہ جانے کتنے خیالات آپ کی نگاہوں نے محفوظ کیے اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اتنا سب کچھ ہضم کیسے کر سکتے ہیں ۔
 
جس طریقے سے معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے اور جس انداز سے ہم اس معلوماتی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں اب ہم تعین نہیں کر پا رہے کہ انٹرنیٹ کی اس دنیا میں کون کون سی معلومات تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہے یا یہ کہ وہ کون کون سے مواد ہیں جنہیں ہاتھ لگانا ضروری نہیں یا جو کچھ ہم تک پہنچ رہا ہے آیا وہ معلومات ہے، انٹرٹینمنٹ ہے یا پروپیگنڈہ ۔
 
انٹرنیٹ اس وقت ایک ہلچل بھری دنیا بن چکاہے اس ہلچل بھری دنیا میں نہ ہی آدمی وقت کا تعین کر سکتا ہے اور نہ ہی معلومات کے حصول کا ایک دائرہ کار طے کر سکتا ہے ۔ اس وسیع دنیا میں آدمی گردش کرتا رہتا ہے ۔ معلومات کی اس دنیا میں دماغ کتنا وصول اور کتنا اس کے اوپر سے گزر رہا ہے ۔ معلومات کتنی اہم اور وقت کتنا اہم ہے اور اُس وقت کو ہم کس طرح تقسیم کر سکتے ہیں اب تک ہم اس نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ۔
 
انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہو جائیں اور گوگل پہ کوئی موضوع سرچ کر ڈالیں تولنک در لنک کھلتے ہی چلے جاتے ہےں ،حیرانگی کے عالم میں سر پکڑ کر رہ جائیں کہ مطلوبہ معلومات تک رسائی کے لیے کس لنک سے استفادہ حاصل کریں ۔ یہ ایک سمندر ہے اس کی گہرائی سمندر سے بھی کہیں زیادہ، اس سمندر میں اپنے مطلوبہ ذراءع کے لیے ہی کھوج لگائیے ورنہ بھٹکنے کی صورت میں آپ اپنی یادداشت کھو سکتے ہیں اور آپ کو تو بخوبی پتہ ہے کہ یادداشت کیسی چیز ہے ۔