سیاسی مقاصد کچھ بھی ہوں مگر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما اور بعض غیر جانب دار تجزیہ کار،تنقیدی نظر سے اپنا جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ کھل کر پتہ چل سکے کہ آج پاکستان افراتفری کا شکار کیوں ہے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا ابتداء کہا ں سے کروں ،آنکھیں نم ہیں ،دل اداس ہے ،افسردگی نے اپنی باہوں میں ایسا لپیٹا ہے کہ نکل ہی نہیں پارہا۔لالا کی موت ایک فرد کی موت نہیں ،ایک تسلسل کا اختتام ہے۔
چاروں طرف بپا خاموشی میں جب دور موجود چند چینی ہنستے کھیلتے دکھائی دیے تو حیرانی ہوئی کہ ایک ایسی جگہ پر جہاں دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا تو بھلا یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟ جب تجسس بڑھا تو معاملے کو قریب سے جاکر دیکھنے کا فیصلہ کیا اور جب اُن کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ چینی یہاں اب کوئی مہمان نہیں، بلکہ مستقل مکین بن چکے ہیں اور مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر مچھلیاں پکڑنا ان کا روز کا معمول بن چکا ہے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کاانوائرنمنٹ سیکٹر کا قیام شہر کے ترقیاتی منصوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحولیات کے تحفظ اور گوادر گرین سٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانا ہے۔ جس کا مقصد شہر کی خوبصورتی اور مستقبل میں گوادر کو ماحولیات کے عین اصولوں کے مطابق گرین شہر بنانا ہے۔
وہ ایک سلجھے ہوئے نڈر اور بے باک صحافی تھے۔بلوچستان کی سیا ست پر انکی گہری نظر تھی۔زمانہ طالب علمی سے ہی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔ پہلے پہل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طلباء کی حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔
گراناز یہ میرو کی بانسری کی آواز ہے نا ؟؟ آنی نے گدھے پر لادھی مشکیزہ اتارتے وقت پیچھے موڑ کر پہاڑی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ وہی ابدال ہے اور کون ہوسکتا ہے جو پہاڑوں میدانوں میں بانسری بجاتا پھرے ہمیشہ۔۔۔۔گراناز نے بے دلی سے جواب دیا۔۔۔۔
یہ چھ فروری کا صبح تھا۔موبائیل آن کرنے کے بعد ایک درجن کے قریب وٹس ایپ گروپ سے آنے والے میسجز پر سرسری نگاہ دوڑاتا رہا۔ پہلی نظر ’’ساربان‘‘گروپ کے ایک میسج پر پڑا جہاں لالہ صدیق کے ناگہانی موت کی خبر دیکھ کر افسردگی ہوئی۔
بلوچستان میں مثبت صحافتی اقدار اور حریت فکر کا ایک روشن چراغ تقریباً نصف صدی تک محرومیوں کے اندھیروں میں روشنی کی امیدیں جگاتے ہوئے 6 فروری کو پیر اور منگل کی درمیانی رات کے آخری پہر نہایت خاموشی سے بجھ گیا۔
گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں صدیق بلوچ ایک جان لیوا دھمکی سن کر آئے تھے تاکہ مجھے اپنے حصہ کی دھمکی پہنچائیں اس دن وہ بہت کرب میں تھے ان کا کہنا تھا کہ ایک دھمکی تو برداشت کی جاسکتی ہے لیکن اظہار رائے پر پابندی کی دھمکی ناقابل برداشت ہے۔
یہ رات کا وقت تھا اور پورا خاندان ضروری سامان جمع کرنے کے بعد سریاب روڈ پر کوئٹہ کی پٹیل ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر کے باہر انتظار کر رہا تھا۔جبکہ صدیق بلوچ اپنے دفتر کے اندر اپنی زوجہ محترمہ کی رحلت سے متعلق خبروں کو ٹائپ کرنے میں مصروف تھے، ان کے شریک حیات کی عمر 50 سال سے زائد تھی،ہم سب رو رہے تھے اور اپنی ماں کو کھونے پر گہرے غم میں تھے لیکن وہ مضبوط رہے انہوں نے خبر فائل کی جسکے بعد ہم جنازے میں شرکت کیلئے کراچی کیلئے روانہ ہوئے۔