بظاہر نواب اکبر خان بگٹی اور اسلام آباد کی مقتدرہ کے مابین سیاسی کشمکش اور تصادم کا آغاز سوئی گیس پلانٹ میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے نتیجے میں سامنے آیا جس پر نواب بگٹی نے بلوچی روایات کے تحت شدید ردعمل دیتے ہوئے ایک فوجی آفیسرکا نام لے کر اسے خاتون ڈاکٹر کی بے حرمتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کردیا لیکن اس تصادم کی بنیاد اس وقت پڑی جب سن دوہزار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس نواز مری کو دن دھاڑے کوئٹہ کے ریڈزون میں قتل کرکے اس کا الزام نواب مری بیٹوں سمیت عائد کرکے نواب مری کی گرفتاری عمل میں لائی گئی وہ اس قتل کے الزام میں کئی سال تک ہدہ جیل کوئٹہ میں پابند سلاسل رہے۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں مجھے میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کا چارج ملا مجھے یہ چارج سنبھالے ہوئے پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ میں گزشتہ دوسال سے کوئٹہ میں ہوں۔ اس شہر کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ یہاں انتظامی امور بالخصوص صفائی ستھرائی کاکوئی پُرسانِ حال نہیں اب چونکہ شہر کی صفائی کا محکمہ بھی میرے زیرِ انتظام ہے تو اس حو الے سے کچھ اہم حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔ عام طور پر ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ میٹرو پولیٹن کا کوئی ملازم کام نہیں کرتا اور یہ کہ میٹرو پولیٹن میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہو رہی ہے۔ میٹرو پولیٹن کے بارے میں حقائق سے آگاہی نہ ہونے کے سبب اکثر فنڈز میں خرد برد کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سچ یہ ہے کہ میٹرو پولیٹن کا عملہ نہایت تندہی اور جاں فشانی سے اپنے کام میں مگن ہے۔ یہاں کے ورکرز ہمہ وقت اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنی بساط کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میٹروپولیٹن پر اتنی تنقید کیوں ہوتی ہے؟ کیا محکمے کے لوگوں میں کام کرنے کی لگن نہیں یا شہر کی اس ابتر صورتحال کے ذمہ دار وہ مخصوص عوامل ہیں جن کے سامنے پورا محکمہ بے بس ہے۔ ان سوالات کاجواب جاننے کے لیے ہمیں کچھ بنیادی حقائق کا جائزہ لینا ہو گا۔
موجودہ گرین بیلٹ بلوچ قومی تاریخ میں ایک وسیع مقام رکھتا ہے۔ اسے صرف پٹ فیڈر اور کھیرتھر کینال کے میگا پروجیکٹس تک محدود نا رکھا جائے۔ اگر دانشوروں اور تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ مہر گڑھ کی نوادرات ہزاروں سال پرانی تہذیب درحقیقت بلوچ تہذیب ہی ہے۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک ملک مسائل کے بوجھ تلے دب چکاہے۔ملک کی معیشت زبوحالی، تنزلی اور مسائل سے دوچار ہے جن سے نکلنا اب وقت کی نزاکت بن چکی ہے لیکن نکلنا اب ناممکن ہوچکاہے۔ معیشت کی حالت زار پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملکی معیشت بہتری کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ ابتری کی جانب گامزن ہے۔ ٹیکسیشن کے ناقص نظام کے سبب ملک کو برسوں سے مالی بحران اور خسارہ کا سامنا ہے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ملک کی معیشت مزید تنزلی کا شکارہے اور ترقی نہیں کرپارہاہے۔ بوسیدہ ٹیکسیشن نظام نہ صرف مالی خسارے کا باعت بنتا ہے بلکہ غیر رسمی معیشت (Informal Economy) کو فروغ، غریب طبقہ غریب تر اور امیر طبقہ امیر تر اور زیادہ ان ڈائریکٹ ٹیکس مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق بلوچ ورنا وانندہ گل کوئٹہ کا قیام 13 اگست 1962 کو عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر شعیب گولہ اور سیکریٹری جنرل آغا عبدالخالق تھے جبکہ اہم اور سرگرم اراکین میں صدیق آزات، صورت خان مری، امیر الملک مینگل، حکیم لہڑی، خیرجان بلوچ، کریم دشتی و دیگر شامل تھے۔
بے نظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے نہ صرف سیاست میں اپنا لوہا منوایا بلکہ دنیا بھر میں اپنی سیاسی شناخت بھی بنائی۔ ان کا سیاسی سفر نشیب و فراز سے بھرپور رہا جس میں عروج و زوال دونوں شامل ہیں۔انہوں نے اپنی سوانح عمری جس کا عنوان ہے Destiny of Daughter “جو East the of Daughterکے نام سے بھی شائع ہوئی” اس میں،بینظیر بھٹو نے ایک متمول اور بااثر پاکستانی خاندان میں اپنے مراعات یافتہ بچپن سے شروع ہونے والی زندگی کی داستان بیان کی ہے۔اپنی سوانح عمری میں وہ ہارورڈ اور آکسفورڈ میں اپنی تعلیم، اپنے والد، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور اپنی سیاسی بیداری کے بارے میں بیان کرتی ہیں۔ اس کتاب میں مسلم اکثریتی ملک کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم تک کے راستے میں چیلنجوں اوربعد ازاں جلاوطنی کے ادوار کا تذکرہ موجود ہے۔