دنیا کی تاریخ میں استاد کا مقام بہت بلند ہے خاص ان معاشروں میں جہاں تعلیم کے اعتبار سے بہت ترقی ہوئی ہے ایک معلم یا معلمہ مزاج میں سخت ہو یا زیادہ پڑھا ہو، ایسی مزاج اور ماحول میں طلباء کیلئے مشکل ہوتاہے اچھی طرح سیکھ سکیں مگر طلباء وطالبات بنا کوئی مشکلات پیدا کیے سہ لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے استاد کا مقام بلند سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی کہ استاد کا مقام بلند ہے۔ وہ معاشرہ ترقی کرتے جہاں استاد کا کردار اہم ہوتا ہے وہ معاشرہ جو ترقی نہیں کرتا اس میں بھی استاد کردار ہوتا ہے اگر عام جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ بناء کسی معلم کے طبیب، انجینئرز، نرس، پائیلٹ یعنی پیشہ ور افراد پیدا ہونا ناممکن کے قریب ہے۔ اگر استاد ان کو وہ تعلیم نہ دے جو معاشرے کے معاملات کو چلا سکیں تو وہ معاشرہ کیسا ہوگا اس کا اندازہ سب ہی کو ہوگا۔
2018 میں اس لائبریری کے لئے 99 لاکھ منظور ہوئے تھے۔ لائبریری کی تعمیراتی کام 2020 کو مکمل ہوا اس دن سے لیکر آج تک لائبریری تالہ بندی کا شکار ہے۔ بی ایس او پچار پچھلیکئی دنوں سے لائبریری بحالی مہم چلارہا ہے، مہم بند لائبریری کے سامنے چٹائی بچھاکر اسڈی سرکل لگانے کے صورت میں چلایا جارہا ہے۔
زندگی میں بہت سے آپ کو آپ کے مطابق نہیں ملتے ان کو انہی کے مطابق دیکھنا سمجھنا اور برتنا پڑتا ہے خاص طور پروہ لوگ جو آپ سے ملتے جلتے اٹھتے بیٹھتے بھی ایک خاص فاصلہ رکھتے ہوں اپنے بارے میں جاننے کا موقع نہ دے رہے ہوں پھر انکی شخصیحت کا ایک خاص رکھ رکھاو ہو تو ان کو جانچنے اور پرکھنے میں برسوں لگ جاتے ہیں نامور ادیب دانشور واجہ حکیم بلوچ ان محترم لوگوں میں سیتھے جن کوجاننے میں زمانے لگتے ہیں۔ ان سے تعلق ذاتی یا شخصی سطح پرکم رہا لیکن ان کی تحریریں پڑھنے کا شرف رہا موضوعات کا تنوع موضوع اورزبان و بیان کو بہت اولیت دیتے تھے ان سے تعلق میں جو چیز سب سے زیادہ اچھی لگی وہ ان کا بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کی تگ ودو ہے۔
بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت جدید ترقی سمیت تعلیم ، صحت، روڈ، انفرسٹریکچر و دیگر بنیادی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی ایک بڑی شرح علاج و معالجہ کی عدم سہولیات کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پستی پر ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی اکثریت دوران حمل یا زچگی کے وقت موت کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ بکھری اور کم آبادی کے باعث ہسپتال طویل فاصلوں پر ہیں جہاں پہنچتے پہنچتے خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
پھٹے ہوئے ہونٹ ، سوجھا ہوا منہ، نیل پڑے رخسار، بکھرے بال ، ہاتھوں اور گردن پہ کھروچ کے نشانات واضح طور پر یہ پیغام دے رہے تھے کہ اْس پر بہت کچھ گزر اہے۔ اْس کو اذیتیں دی گئی ہیں، پیروں پہ بھی نیل کے نشان تھے۔ آواز کی لڑکھڑاہت روح کی شکستگی بھی بیان کررہی تھی۔ سکینہ ( فرضی نام ) 2 سال قبل اْس کی شادی وٹے سٹے کے تحت ہوئی تھی، اْس کی ایک 18 ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ اْس نے بتایا کہ ” شادی کے شروع کے دن تو میرا میاں میرا بہت خیال رکھتا تھا ، پھر بعد میں میری بھابھی جو وٹے سٹے میں گئی تھی ، نے شکایتیں شروع کئے کہ اْس کے ساتھ سسرال میں برا سلوک کیا جاتا ہے ، پھر یہاں میرا جینا مشکل ہوگیا،
معروف سفارتکار توشیکازو ایسومورا جاپانی وزارت خارجہ میں لگ بھگ 36 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد جمعہ کو کراچی میں قونصل جنرل جاپان کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ وہ چند دن بعد کراچی سے ٹوکیو روانہ ہوجائیں گے۔ کراچی میں جاپان قونصلیٹ میں جمعہ ان کے کام کا آخری روز تھا۔ آخری ورکنگ ڈے کے آخری گھنٹے کے دوران وہ بہت افسردہ نظر آئے۔
بلوچستان اپنے جغرافیائی اور تزویراتی محل و قوع کی وجہ سے صدیوں سے عالمی او رسامراجی طاقتوں کی نظر میں رہا ہے ۔خصوصاً جب انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت ہند کے بعد پورے برصغیر پر اپنا نوآبادیاتی تسلط قائم کرلیا تو وہ اس سے قبل بلوچستان کی جانب متوجہ ہوچکے تھے جہاں قلات ، لسبیلہ ، مکران او رخاران میں آزاد ریاستوں کے علاوہ آزاد قبائلی علاقہ موجود تھا۔
(پرو فیسر ڈا کٹر پر ویز ہود بھائے کا یہ مضمون 26 فروری 2022 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔روز نامہ آزادی کی قارئین کے لیے اس کاترجمہ یہاںپیش کیا جارہا ہے۔)
سیکور ٹی فور سز پر حملوں میں مو جودہ معمولی اضافہ(ٗuptic )سے ہم ایک بار پھر اسی جانی پہچانی معمول پر آ گئے کہ دہشت گردی کا واقعہ ہونے اور الزام لگنے کے درمیان مشکل سے چند منٹ کا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بغیر ثبوت اور تحقیق کے الزام لگانا کبھی تبدیل نہیں ہوا۔جو کچھ بھی ہو اس میں غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔
انسانی حقوق آسان الفاظ میں، تمام انسانوں کو ان کی نسل، جنس، مذہب، قومیت اور ثقافت وغیرہ سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل ہیں۔ان میں سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی، آزادی، ثقافتی، جائیداد کے حقوق وغیرہ شامل ہیں۔ تمام انسانوں کو کسی بھی قسم کے امتیاز اور غیر منصفانہ سلوک سے پاک ہونا چاہیے۔
ملکی تاریخ میں دوسری بار جمہوری دورمیں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے۔ ویسے تو ملکی تاریخ میں یہ تیسری بار عدم اعتماد کی تحریک ہوگی۔ پہلی دفعہ سن 1989 میں بے نظیر کیخلاف تحریک لائی گئی اور ناکام ہوگئی۔دوسری دفعہ شوکت عزیز کے خلاف جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد عدم اعتماد لائی گئی ،جس میں وزیراعظم کو ہٹائے جانے کے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کیے جاسکے۔ پیپلزپارٹی کی جب حکومت آئی تو 18ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کی بھی ترمیم کی گئی۔