آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہنرمند افراد کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائشی ہو رہی تھی۔ ایک اسٹال مزری سے بنے آئٹم کا تھا۔
مزری کے جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہنرمند افراد کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائشی ہو رہی تھی۔ ایک اسٹال مزری سے بنے آئٹم کا تھا۔
زہیر مشتاک | وقتِ اشاعت :
کمبر تیزی سے سفر کرتے ہوئے سامی پہنچ گیا ،قلعے کے قریب بہت رش کش تھا ، طویل سفر کی وجہ سے کمبر کی مشکیزے کے پانی ختم ہوچکے تھے ، مشکیزہ بھرنے کے لیے کجھوروں کے باغ میں گیا وہاں کچھ خادم کام کررہے تھے ، کمبر نے خادموں سے سلام و دعا کرکے… Read more »
زہیر مشتاک | وقتِ اشاعت :
مہمان خانے میں کمبر آگ کے قریب بستر پہ لیٹا کبھی مکران کی بغاوت کے بارے میں سوچتا تھا کھبی ماہ گنج اور بلوچ خان کو یاد کرتا تھا ، شادی کے بعد پہلی بار کمبر ماہ گنج سے الگ ہوا تھا ، جب ماہ گنج ہفتوں بعد کچھ وقت کے لیے اپنے ماں کی… Read more »
سمیع کاکڑ | وقتِ اشاعت :
دوسرا اورآ خری حصہ
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
بکری اڑی۔ سب بچے ہاتھ نیچے کیا کرتے تھے، کوا اڑا۔۔۔ سب کے ہاتھ اوپر۔ ہم سب نے کوئوں (بلوچی میں کلاگ یا گْراگ) کو اڑتے دیکھا اور کائیں کائیں کرتے سنا۔ پہاڑ ان کا مسکن ہوا کرتا تھا خوراک کی تلاش انہیں آبادی کی طرف دھکیل دیا کرتا تھا۔ پہاڑی کوے جسامت اور رنگت… Read more »
زہیر مشتاک | وقتِ اشاعت :
کمبر اور ماہ گنج ہر گزرتے دن ایک دوسرے کے مزید دیوانے ہوتے جارہے تھے ، کمبر اپنے والد کے ساتھ باغوں میں ہاتھ بٹھاتا تھا میری اور بلوچ سیاست پر مسلسل گہرا نظر بھی رکھا ہوا تھا ، شادی کے بعد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے کمبر کی جنون ختم نہیں ہوا تھا لیکن مسلع مزاحمت کے لیے کوہی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا ، وہ دن بھی آ گیا کہ ماہ گنج نے ایک بچے کو جنم دیا ، کمبر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، نام رکھنے والے دن گھر میں اجلاس ہوا سمندر خان نے مشورہ دیا کہ نصیر خان رکھ دو ، ماہ گنج نے کہا کہ مجھے چاکر نام بہت پسند ہے ،
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
گئے زمانے کی خوبصورت یادیں اب بھی دل کو بھاتی ہیں۔ جذبوں، رشتوں کی اقدار اور ان کی بھینی سی خوشبو جب بھی دماغ میں سما جاتی ہے تو سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔۔سکول جانے کے لیے ہمارے پاس سواریاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پون گھنٹہ کا سفر ہم بیدی گاؤں سے پیدل طے کیا کرتے تھے۔ بیدی تک کا سفر پھر بھی ارزاں سمجھا جاتا تھا۔ پیراندر اور تیرتیج کے طلبا کو سکول تک پہنچنے کے لیے سفر کی دہری اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔
زہیر مشتاک | وقتِ اشاعت :
رات کے وقت سمندر خان اور جان بی بی گھر میں بیٹھے تھے دروازے پہ دستک ہوئی ، سمندر خان نے دروازہ کھولا کمبر کھڑا تھا ، کمبر کو دیکھتے ہی سمندر خان کی آنسو نکل گئے اور شدت جزبات میں کمبر کو گلے لگاکر اندر لائے ، جان بی بی نے کمبر کی سر کو چھومنا شروع کردیا خود کو دعائیں دیتی رہی اور روتی رہی ، رات دیر تک جان بی بی کمبر سے باتیں کرتی رہی لیکن کمبر بالکل خاموش گم سم بیٹھا تھا
زہیر مشتاک | وقتِ اشاعت :
گوہر خان اور کمبر نے درہ سوہندہ میں مورچہ بندی کرکے پسند خان اور انگریزی فوج کی انتظار کرنے لگے ، کمبر درہ کے آس پاس کی جائزہ لینے کے لیے کمیپ سے نکل کر ایک تلار سے ہوتا ہوا پہاڑوں کے اندر چلاگیا ، اسے ایک گدان نظر آیا ، کمبر گدان کے قریب… Read more »
سمیع کاکڑ | وقتِ اشاعت :
تیز سورج چمن کی وادی کو دھوپ میں شرابور کر چکا تھا۔اس تمازت سے برف سے ڈھکی چوٹیاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ مراد، ایک چھوٹا مقامی تاجر، جس کے ہاتھ سالوں کی لین دین سے سے کھردرے ہوچکے تھے، اپنی سکوٹر سے کچی پکی گلیوں میں گرد اڑا رہا تھا۔ مگر آج اس کا دل بازار میں نہیں تھا۔ اس کا دل اس وقت اپنے بیٹے حسن کے لیے دھڑک رہا تھا، جو کچے مٹی کے گھر میں لیٹا ہوا تھا۔چند ہفتوں پہلے کی ہی تو بات تھی ، حسن ایک توانائی کا طوفان تھا، مرغیوں کے پیچھے بھاگنا اور آسمان میں اڑتے ہوائی جہاز کو پکڑنے کی کوشش کرنا۔ پھر بخار آیا، ٹانگوں میں کمزوری آئی اور بھیانک لنگڑے پن کا درد اس کی ہنسی کو درد میں بدل گیا۔