ثقافت ، سیاحت ، کھیل کے شعبوں میں حکومتی اقدامات

| وقتِ اشاعت :  


موجودہ صوبائی مخلوط حکومت نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی قیادت میں صوبے کی ہمہ جہت ترقی کے لیے مختلف شعبوں میں مربوط اقدامات کے ذریعے عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی، معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کو وسعت دینے کا آغاز کردیا ہے۔ ان اقدامات کے ثمرات بہت جلد عوام کو خوشگوار تبدیلی کی صورت میں نظر آئیں گے۔بہتر منصوبہ بندی، سرکاری ترقیاتی فنڈز کے مئوثر استعمال کے ذریعے مثبت نتائج کا حصول موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ایسے شعبے جن کی اہمیت مسلّم ہے اور ماضی میں ان کو بوجوہ نظر انداز کیا گیا ان پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ان میں ثقافت، سیاحت، کھیل اور امورِ نوجوانان کے شعبے شامل ہیں۔



میر حاصل بزنجو کی یاد میں

| وقتِ اشاعت :  


اگست کا مہینہ ہے گیارہ اگست بابا بزنجو کی برسی کا دن اور میں بابا بزنجو کے حوالے سے کچھ دنوں سے مختلف کتب کا مشاہدہ کرنے میں مصروف تھا ۔بابا بزنجو جنہیں کینسر جیسے موذی مرض نے ہم سے جدا کر دیا۔ میں بابا بزنجو پر مارشل لاء کے دور میں کیے گئے مظالم پر اپنا مضمون مکمل کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اتنے میں خبر آئی کہ میر حاصل خان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے جو چند ماہ سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ایک گھنٹہ پہلے وہ کسی آن لائن پروگرام میں شرکت کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک طبیعت بگڑنے کے باعث انہیں فوراً ہسپتال لے جانا پڑا وہ کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف مضبوطی کے ساتھ اپنی جنگ لڑ رہے تھے، وفات سے دس دن پہلے وہ بابا بزنجو کی برسی کے موقع پر مختلف تقاریب سے خطاب کرتے رہے اور کہتے رہے مجھے اپنے والد کی سیاست پر فخر ہے ۔



طالبان انقلاب اور بلوچستان پر اثرات۔

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے ساتھ طویل سرحدی شراکت دار پڑوسی ملک جو بلوچستان کے پاکستان سے الحاق سے پہلے بھی ریاست قلات کے لیے بہت اچھا دوست ملک رہا ہے افغانستان میں گزشتہ دنوں غرور کو ہزیمت اور مشرقی کلچر کی جیت ہوئی ہے، اس کو میں اسلامی اور مشرقی کلچر کی جیت اس لیے قرار دوں گا کیوں کہ یہ ایک مہمان کی عزت پر لڑی جانی والی تاریخ کی طویل ترین لڑائی ہے، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی سے نظریات کو دبانے کی دعویدار طاقتیں کسی کے مہمان کو مارنے اور ملک کو تباہ کرنے آئے تھے مگر ان لوگوں کو بھی چھوڑ کر بھاگے جنہوں نے اس عمل کے دوران دامے درمے سخنے ان کی مدد کی تھی، یہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے مگر کم نسل شاہ انہیں بر سر راہ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔



کالجز کی نجکاری اور لاحق خدشات

| وقتِ اشاعت :  


روئے زمین پر تقریباً دو سو ممالک آباد ہیں ان سارے ممالک کا اگر جائزہ لیا جائے تو ترقی اور خوشحالی کے لحاظ سے وہ ممالک آگے ہیں جو علم و تعلیم میں آگے ہیں۔ کمزور ممالک تعلیم کی کمی کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم سب سے بڑا سرمایہ اور ہتھیار ہے۔



میر آپ کی یاد آپ کے جانے کے بعد

| وقتِ اشاعت :  


ان دنوں افغانستان کی صورتحال بالخصوص اور ملک کی سیاسی صورتحال بالعموم ایسی ہے کہ ٹیلی فون کی ڈائل لسٹ پر ایک نمبر نکال کر دیکھتا ہوں پھر سوچتا ہوں کہ کسی شاعر نے ایسی ہی شخصیات کیلئے کہا ہوگا



بڑے باپ کا ہونہار بیٹا

| وقتِ اشاعت :  


نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کے وارث ان کی اولادیں نہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی پر اختتام کیا۔



میرحاصل بزنجوکوبچھڑے ایک سال بیت گیا

| وقتِ اشاعت :  


میرحاصل بزنجوکومیں کبھی بھی بھول نہیں سکتابلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ میرصاحب کے تعلقات جس کسی کیساتھ بھی رہے ہیں وہ سب عمربھرانہیں یادکرتے رہیں گے حاصل خان کایہ کمال تھاکہ وہ سب دوستوں،پارٹی کارکنوں اورلیڈروں کوآپس میں جوڑے رکھتے تھے ۔راقم کامیرصاحب سے بہت قریبی تعلق تھاانکے بچھڑجانے کے بعدہم دوست آپس میں جب بھی مل بیٹھتے ہیں توہماری محفلیں انکے ذکرسے خالی نہیں ہوتیں ہم بعض معاملات پرمیرصاحب سے لڑتے جھگڑتے بھی تھے اورپھرجلدراضی بھی ہوجاتے تھے حاصل خان مجھے ہمیشہ یہ بات سمجھاتے تھے کہ سیاست میں جذبے کی توبہت ضرورت ہوتی ہے۔



پسنی فن و تخلیق کی سرزمین

| وقتِ اشاعت :  


صحرائِے مستانی(مستانی ریک) اور بحرِ بلوچ کے سنگم پر واقع بلوچستان کا لکھنئو کہلانے والا شہر پسنی ہر دور میں فن و ادب کے حوالے سے موضوع رہا ہے، بلوچی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کو قابل و نامور شخصیت دینے والے پسنی نے 26 دسمبر 2012 میں ایک اور منفرد اور دلکش تاریخ رقم کی، تین نوجوان زبیر مختار، حسین زیب اور بہار علی گوہر نے ساحلِ پسنی کی معطر و نم ریت سے علاقے کا پہلا سینڈآرٹ تخلیق کیا، ایک تھکا ماندہ اْونٹ جو زمین پر بیٹھا مشہور بلوچی رومانی داستان کے ہیرو ”کِیّا” کے “شِلِنگ” نامی اْونٹ کا استعارہ پیش کرتا ہے، اس پہلے سینڈآرٹ کو بہت زیادہ پزیرائی مِلی، آرٹسٹ کو جب قدردانوں کی حوصلہ افزائی مِلتی ہے تو اْسکے ہْنر کو پَر لگ جاتے ہیں۔



صوبائی حکومت کی آبپاشی اور آبنوشی سے متعلق ترجیجات

| وقتِ اشاعت :  


پانی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس نعمت کی اہمیت اور اندازہ بلوچستان کے باسیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جہاں پر آبادی ،زراعت اور لائیواسٹاک کا دارمدار صرف بارش کے پانی پر منحصر ہے۔ ماحولیاتی تغیرات ،طویل خشک سالی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے بلوچستان پانی کی قلت اور عدم دستیابی سے گھرا ہوا ہے سنگلاخ پہاڑ، تاحد نظر صحرا اور بے آب گیاہ میدان سے گھرا یہ خطہ اپنے منفرد موسمی حالات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔



انگریز سامراج سے آزادی تاریخ کے آئینے میں

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا ہے آزادی اللہ تعالی کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے آزادی کا احساس ہمارے ساتھ اس لیے نہیں کہ ہم نے غلامی کی زندگی دیکھی نہیں جو قومیں غلامی کی زندگی گزارتی ہیں وہی آزادی کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں ہمارے دل میں اس کی قدر و منزلت کہاں؟