نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کے وارث ان کی اولادیں نہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی پر اختتام کیا۔
میرحاصل بزنجوکومیں کبھی بھی بھول نہیں سکتابلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ میرصاحب کے تعلقات جس کسی کیساتھ بھی رہے ہیں وہ سب عمربھرانہیں یادکرتے رہیں گے حاصل خان کایہ کمال تھاکہ وہ سب دوستوں،پارٹی کارکنوں اورلیڈروں کوآپس میں جوڑے رکھتے تھے ۔راقم کامیرصاحب سے بہت قریبی تعلق تھاانکے بچھڑجانے کے بعدہم دوست آپس میں جب بھی مل بیٹھتے ہیں توہماری محفلیں انکے ذکرسے خالی نہیں ہوتیں ہم بعض معاملات پرمیرصاحب سے لڑتے جھگڑتے بھی تھے اورپھرجلدراضی بھی ہوجاتے تھے حاصل خان مجھے ہمیشہ یہ بات سمجھاتے تھے کہ سیاست میں جذبے کی توبہت ضرورت ہوتی ہے۔
صحرائِے مستانی(مستانی ریک) اور بحرِ بلوچ کے سنگم پر واقع بلوچستان کا لکھنئو کہلانے والا شہر پسنی ہر دور میں فن و ادب کے حوالے سے موضوع رہا ہے، بلوچی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کو قابل و نامور شخصیت دینے والے پسنی نے 26 دسمبر 2012 میں ایک اور منفرد اور دلکش تاریخ رقم کی، تین نوجوان زبیر مختار، حسین زیب اور بہار علی گوہر نے ساحلِ پسنی کی معطر و نم ریت سے علاقے کا پہلا سینڈآرٹ تخلیق کیا، ایک تھکا ماندہ اْونٹ جو زمین پر بیٹھا مشہور بلوچی رومانی داستان کے ہیرو ”کِیّا” کے “شِلِنگ” نامی اْونٹ کا استعارہ پیش کرتا ہے، اس پہلے سینڈآرٹ کو بہت زیادہ پزیرائی مِلی، آرٹسٹ کو جب قدردانوں کی حوصلہ افزائی مِلتی ہے تو اْسکے ہْنر کو پَر لگ جاتے ہیں۔
پانی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس نعمت کی اہمیت اور اندازہ بلوچستان کے باسیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جہاں پر آبادی ،زراعت اور لائیواسٹاک کا دارمدار صرف بارش کے پانی پر منحصر ہے۔ ماحولیاتی تغیرات ،طویل خشک سالی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے بلوچستان پانی کی قلت اور عدم دستیابی سے گھرا ہوا ہے سنگلاخ پہاڑ، تاحد نظر صحرا اور بے آب گیاہ میدان سے گھرا یہ خطہ اپنے منفرد موسمی حالات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا ہے آزادی اللہ تعالی کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے آزادی کا احساس ہمارے ساتھ اس لیے نہیں کہ ہم نے غلامی کی زندگی دیکھی نہیں جو قومیں غلامی کی زندگی گزارتی ہیں وہی آزادی کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں ہمارے دل میں اس کی قدر و منزلت کہاں؟
بڑے بوڑھے کہتے ہیں بھلے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے، ہاتھ اور گلے مل کر ایک دوسرے کیلیے بیٹھنے کی جگہ بناتے تھے۔چائے کھانا وغیرہ سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی تھی۔ محافل تھیں خوش گپیاں تھیں۔کسی محفل میں نووارد کیلیے جگہ بنانا نوجوانوں کی مشرقی اقدار میں سے ایک نمایاں قدر ہوا کرتا تھا۔
بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں جاگیردارانہ نظام اور حکومتی ریشہ دوانیوں کے خلاف کسانوں کی تحریک ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے۔ پٹ فیڈر کینال سے پانی کی مصنوعی قلت اور چوری کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر آل پارٹیز الائنس اور کسانوں نے احتجاج کیا۔ پٹ فیڈر کے پورے علاقے کے کسانوں کو ایک بار پھر سزا دی جارہی ہے۔ وہ اپنی زمینیں چھوڑیں یا اونے پونے داموں فروخت کردیں اور یہاں سے بھاگ جائیں۔ ان کا پانی بندکردیاگیاہے۔ کسان مرکز سے اپنے پانی کا حصہ مانگ رہے ہیں اور سندھ پر بھی الزام لگارہے ہیں کہ سندھ کے حدود میں ان کا پانی چوری ہورہا ہے۔
قارئین کرام۔ایک رپورٹ پہ نظر پڑی جس میں ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد طلباء اور طالبات آئس نامی نشے کی لت میں پڑ چکے ہیں میں حیران تھا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے یا جھوٹ۔ جب میں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ واقعی یہ بات سچ ہے۔ پھر ایک دوست سے پوچھا کہ یہ آئس ہوتا کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آئس نشہ ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔
قلات ایک زرخیز۔مردم خیز۔ سرزمین ہے۔ جہاں پراعلی پایہ کے شخصیات نے جنم لیا اور بین الاقوامی سطح پر نام کمایا۔ یہاں بزرگ ولی بھی گزرے یہاں پر ہزاروں ملک وقوم کے لییجان قربان کرنے والیپیر مرید مدفون ہیں قلات کے بغیر بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ مکمل نہیں قلات کے لوگ زندہ دلی اور مزاح کے حوالے سے بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ھیں مجلسی لوگ ہیں براھوی ادب کے حوالے سیبھی ابتداء دور قلات کیارد گرد گھومتی ہے۔اقتباس از مرواری تالڑ۔میں انور نسیم کااظہار خیال صف 10۔جو انور نسیم اور اللہ بخش لہڑی کے ایک براھوی افسانے کے نام سے کتاب چھپی ہے۔ اس سے عنوان کا آغاز کر رھاھوں۔ کہ قلات کے صحافت کاایک اور ستون بھی گر گیا کچھ عرصہ قبل محمود احمد آفریدی ھم سے بچھڑ گئے وہ غم تازہ تھا کہ انور نسیم نیداغ مفارقت دے گیا انور نسیم مینگل کا نام محمد انور ولد محمد یوسف قوم زگر مینگل سے تھا بلوچستان کے ضلع خضدار کے گورنمنٹ کالونی میں محمد یوسف کے ہاں پیدا ھوے دینی تعلیم اور عصری تعلیم خضدار میں کچھ عرصہ پڑھا بعد میں جب والد محترم کا پوسٹنگ قلا ت ھوا تو قلات میں محلہ غریب آباد میں رھائش پزیر ھوے تو قاعدہ ملا اعظم اخند سے پڑھے اور مدرسہ تجوید القرآن بازار قلات میں مولانا نور حبیب سے قرآن مجید پڑھا اورمدرسہ انوارالتوحید رئیس توک میں فارسی زبان سیکھا مولانا حکیم شاہ محمد سے کریما پڑھا حافظ نور محمد سے ایک پارہ پڑھا جب میں راقم الحروف نے حفظ شروع کیاتھا تو بتانے لگے کہ میں نے یہ پارہ ایک ہفتہ میں یاد کیا ابتدامیں والد صاحب کی کتابیں اور رسالے اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔
سردار حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات 2003ء میں کراچی میں الہٰی بلوچ کے گھر بادبان D.H.A میں ہوئی، سردار کے ساتھ بھی دوست واحباب تھے، پہلی ملاقات میں سردار حمیداللہ سے ایسی قربت بڑھی کہ اسی دن سے لیکر آخرتک ایک دوستانہ تعلق رہا۔ میں نے ڈی ایچ اے صباء کمرشل میں اپنا آفس 2003میں تیارکیا توسردار حمیداللہ سے درخواست کی کہ آپ آئیں اس کا افتتاح کریں تو سردار صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ آئے،الہٰی بلوچ، عاشق جاموٹ، سردار ظفرگچکی، حفیظ ہوت اوربھی بہت سے دوست واحباب تھے توسردارصاحب نے ازراہ مذاق کہاکہ فداحسین میں افتتاح کررہاہوں اللہ تعالیٰ آپ کوکامیاب کرے اگر کاروبارنہیں چلا تومجھ پر ناراض نہ ہوں کہ سردار نے افتتاح کیا، کاروبارنہیں چل رہا۔میں نے کہاکہ انشاء اللہ برکت ہوگا، اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کامیاب کیا جب بھی ہم ملتے توسردار صاحب پوچھتے، میں کہتا کہ اللہ کاکرم ہے۔