ہمیں دین کے ہرشعبے میں حضور ؐکی تعلیمات کی پروی کرنی چاہئے۔ دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت کا ہے۔ یہ بہت اہم شعبہ ہے قرآن نے جا بجا اس کی اہمیت اور طریقہ کار بتایا ہے۔ جب کسی کو اسلام کی دعوت دو، تو ان کے ساتھ نرمی برتو، سخت لہجے سے اجتناب کرو۔حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ شاید کہ وہ بات مان جائے۔
سات بیٹیاں پیدا کر لیں لیکن ایک بیٹا نہیں پیدا کر سکی برے طریقے سے اپنی بیوی کو پیٹتے ہوئے ایک خاوند کے اپنی بیوی کو بولے جانے والے یہ الفاظ سن کر دِل زارو قطار رونے لگا ذہن میں ہزاروں سوالات آ نے لگے دِل چاہا کہ پوچھا جائے کیا تمہاری ماں جس نے تمہیں جنم دیا وہ کسی کی بیٹی نہیں ھے؟ کیا تمہاری بیوی جس سے تم بیٹا پیدا کرنے کی خواہش کرتے ہو وہ بیٹی نہیں ھے؟ پِھر بیٹی کے پیدا ہونے پر کسی کی بیٹی پر اتنا ظلم کیوں؟ بیٹی کے پیدا ہونے پر اظہار افسوس کیوں؟ صرف اتنا ہی نہیں کچھ عرصہ پہلے لاہور میں باپ بیٹے نے مل کر اپنی بیٹی کو صرف اِس لیے قتل کر دیا کیوں کے وہ گول روٹی نہیں پکا سکتی تھی ایک بھائی نے زیادتی کا شکار ہونے پر اپنی بہن کو قتل کر دیا بیروزگاری کے ڈر سے بیٹی کو منحوس سمجھ کر زندہ دفنا دیا گیا _ ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے قصے سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں _ کیا قصور تھا اس بیٹی کا جو بیروزگاری کے خوف سے زمین میں گاڑھ دی گئی؟ کیا قصور تھا 7 سالا زینب کا جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا؟ کوئی ہے۔
اپنے اشتعال انگیزمذہب مخالف مواد کی وجہ سے بدنام فرانسیسی میگزین ’شارلی ہیبڈو‘ پر 2015میں توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بعد حملہ ہوا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اس میگزین نے پھر انہی خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی۔ اکتوبر میں فرانس کے صدر میکخواں نے اس میگزین کے حق میں بیان دیا جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا ردعمل سامنے آیا۔ لاکھوں ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے گئے اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بھی مہم چلائی گئی۔ فرانس میں ریاستی سیکیولرزم یا ’لاسیت‘ کا تصور کو اس کی قومی شناخت میں مرکزیت حاصل ہے۔ تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر آزادی اظہار کو وہ اس تصور کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کسی خاص مذہب کے جذبات کا خیال رکھنے کو وہ اپنی اس قومی شناخت کے منافی تصور کرتے ہیں۔ فرانسیسی سیکیولرزم تمام مذاہب کو مسترد کرتا ہے۔ اس میں اسلام بھی شامل ہے تاہم یہ رویہ صرف اسلام تک محدود نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص حامد کرزئی کے پاس پہنچا، اور فرمائش کی کہ انہیں افغانستان میں ریلوے کا وزیر لگا دیا جائے۔ کرزئی بے چارے ششدر رہ گئے۔جواب میں کرزئی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ایسے ہی ریلوے کا منسٹر لگا دوں۔ بندے نے کہا کیوں نہیں لگا سکتے، کرزئی نے کہا کہ ” ہمارے یہاں ریلوے کا نظام ہی نہیں ہے تو میں کیسے تمہیں ریلوے کا وزیر لگا دوں۔” بندے نے جواب میں کرزئی سے کہا، ” اگر پاکستان میں قانون کا وزیر ہو سکتا ہے تو افغانستان میں ریلوے کا وزیر کیوں نہیں ہو سکتا؟ِ
دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی آزاد ریاست ہو یا پھر کوئی مفتوحہ علاقہ وہاں کا نظام وہاں کے طاقتور اداروں یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ہمارا ملک پاکستان دنیا میں ایک خود مختار ملک جانا جاتا ہے۔ اس کی ترقی چاہے تعلیم و صحت کے اعتبار سے ہو یا زراعت و تجارت کے حوالے سے۔ کوئی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ ہو اس پر خودمختار اور طاقتور ادارے اسٹیبلشمنٹ کی کڑی نگاہ رہتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دفاعی ادارہ پاک آرمی ہے جو کہ سپاہی سے جنرل تک عالمی سطح پر مقبول ہے کہ یہ اپنے ملک کا سب سے وفادار ادارہ ہے۔ اس نے نہایت ہی نیک نیتی خوش اسلوبی اور دیانتداری سے بلا رنگ و نسل ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ حالیہ سال 2021 میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی اختلافات دن بدن بڑھ رہے تھے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے آپس میں اتحاد کر لیا اور اپنے اس اتحاد کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا نام دیا اور ایک سیاسی و مذہبی پارٹی جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم کا مرکزی سربراہ بنایا۔
سنکیانگ، جوکہ چین کا شمال مغربی حصہ ہے، ایک ایسے خطے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جو معاشی ترقی کو انتہائی اہمیت دے رہا ہے اور جس نے گزشتہ کئی برسوں سے اس سرزمین کے باسیوں کو اطمینان اور مسرت کا احساس دلانے میں مدد فراہم کی ہے۔یہ خطہ ترقی کے اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے جس کا اعلان گزشتہ پانچ سالہ منصوبوں میں کیا گیا تھا، چین کے مغربی حصے میں ایک مستحکم معاشی مرکز ابھرکر سامنے آیا ہے جو اپنی سرحدوں کو مختلف ملکوں سے منسلک کررہا ہے۔اس خطے کے معاشی استحکام نے مقامی باشندوں کو مختلف شعبوں میں ترقی اور نشونما کے عمل کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کیا۔ یہ سیاسی خلاء2006 کو بزرگ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی اور گرتی تھیں۔ جہاں وزیراعظم، صدر مملکت، وزیراعلیٰ سمیت وزرا ء کی قطاریں لگی رہتی تھیں،ان کی حاضریاں ہوتی تھیں۔ سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر جمی ہوتی تھیں۔ یہ ضلع ملکی سیاست کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ، ‘ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو انکریمینٹل (کم لاگت والی) ہاؤسنگ اسکیم کے لیے زمین کی فراہمی دراصل ملک ریاض کے اس یجنڈا کو پورا کرنے کی ایک چال تھی جس کا مقصد ریاست اور عوام کو نقصان پہنچا کر اپنی دولت کو بڑھانا تھا’۔
کیا جمہوریت اپنی جگہ مکمل ہے؟ نہیں جمہوریت اپنی جگہ ہرگز مکمل نہیں ہے اور نہ کبھی مکمل ہو سکتی ہے، دنیا میں کوئی بھی شے کامل نہیں ہوتا،ہر شے میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں چناچہ اشرافیہ اور آمریت کی طرح جمہوریت میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں لیکن اشرفیہ اور آمریت کی نسبت جمہوریت کی خوبیاں زیادہ اور خامیاں کم ہیں۔ ہیراکلائٹس کے مطابق بْری چیز وہ ہے جس کی خامیاں خوبیوں سے زیادہ ہوں اور اچھی چیز وہ ہے جس کی خوبیاں خامیوں سے زیادہ ہوں اس لیے جمہوریت کو مجموعی طور پر صرف اچھا سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے بلکہ سب سے اچھا سیاسی نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اشرافیہ یا آمریت چاہے جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو، مگر وہ جمہوریت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ کارپینٹر نے کہا تھا کہ: اے جمہوریت! تمہارے عیوب کے باجود میں تم سے محبت کرتا ہوں
24 اپریل 2021 کی ایک اخباری خبر کے مطابق جمعہ کے روز بلو چستان اسمبلی اجلاس میں نصراللہ زیرے نے وزیر تعلیم کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاکہ سابقہ دور حکومت میں مادری زبانوں بلوچی، براہوئی، پشتو، سندھی اور فارسی اور دیگر کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کی بابت با قا عدہ طور پر اسمبلی میں قانون پاس ہوا تھا اور اس بارے سکولوں میں پرا ئمری کی سطح تک پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا مگر اب شنید میں آیا ہے کہ حکومت مادری زبا نوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم کر رہی ہے لہذا اس بارے تفصیل فرا ہم کی جائے۔اس پر صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے مادری زبانوں کی تعلیم کا سلسلہ بند کر نے سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا البتہ قومی اسمبلی میں یکساں نصاب لانے کی قرارداد منظور ہوئی ہے اگر وہاں سے قانون منظورہو گیا تو صوبہ اسکے بر عکس قانون پاس نہیں کر سکتا۔ میری خواہش ہے کہ مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم دی جائے تاکہ چھو ٹی زبانیں زندہ رہیں۔انکی خواہش پر اس توجہ دلاؤ نو ٹس کے جواب کو آ ئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس دوران مر کز اور صوبے سے معلومات اکٹھی کر کے ایوان کو فراہم کی جا سکیں۔کیا مرکز تعلیم کے شعبے اور خاص کر مادری زبان کی تعلیم کے حوالے سے صوبوں میں مدا خلت کا حق رکھتی ہے کہ نہیں،آ ئین کا جا ئزہ لینا ضروری ہے۔1973 کے آ ئین کے آر ٹیکل 251 سب سیکشن 3 کہتا ہے،