موقع پرست سیاست ایک ایسی اصطلاح ہے جو سیاست اور اقتصادیات میں فعال طور پر استعمال ہوتی ہے۔ وہ مارکسزم کے نظریات کی بدولت استعمال ہوا۔اس لفظ کی فرانسیسی جڑیں ہیں۔ اس کے ترجمہ کا مطلب ہے “آسان ، منافع بخش”۔ لاطینی زبان میں ، فرانسیسی مواقع کے ساتھ مل کر ایک لفظ ہے۔ لاطینی زبان میں اس کا مطلب ہے “موقع” ، “موقع بدل گیا”۔
آج ہم ایک ایسے عہد میں مزدوروں کا عالمی دن منا رہے ہیں جہاں کورونا کی عالمی وباء نے دنیا کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ لاکھوں انسان اس موذی وباء کا شکار ہو رہے ہیں اور دنیا کی تمام معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے کروڑوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں اور وسیع تر لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد بھی بے روزگار ہی ہیں۔ ایک طرف وباء کی وجہ سے معیشتیں زوال پذیر ہوئیں ،دوسری طرف سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اس دوران بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کورونا وبا نے پوری انسانیت کے سامنے سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور وحشت کو آشکار کردیا ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر بڑی معیشتوں جن کے پاس انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ہتھیار موجود ہیںلیکن ان کے پاس ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر اور آکسیجن کا فقدان ہے۔ ویکسین ابھی تک وسیع تر آبادی بالخصوص تیسری دنیا کے عوام کی پہنچ سے دور ہے اور آئے دن ہزاروں لوگ اس وبا سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ نجی شعبہ ویکسینیشن کی آڑ میں لوٹ مار میں مصروف ہے۔
نصیر آباد ڈویژن محل وقوع اور موسمیاتی لحاظ سے اپنی ایک شناخت رکھتا ہے اس ڈویژن کے بیشتر علاقے ایشیا کے گرم ترین شہروں جیکب آباد اور سبی کے وسط میں واقع ہے جہاں پر گرمیوں میں درجہ حرارت کافی زیادہ رہتا ہے اور کچھ علاقے گرمیوں میں بھی سرد رہتے ہیں
باڈرز کی بندش سے مقامی مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں افطاری کیلئے سوکھی روٹی تک دستیاب نہیں، اب عید میں صرف دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں ان ہزاروں مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں آخر وہ بھی عید کی خوشیوں کے لئے اپنے باپ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں بھی کپڑے اور جوتے ملیں گے ۔ جب یہ بچے اوربچیاں اپنے ابا جان سے سوال کرتے ہیں کہ ابا کب بازار لے چلو گے ہمیں عید کی خدیداری کیلئے۔اف وہ لمحہ کیسا ہوگا اس خشک ہونٹوں والی والدین پر۔یقینا قیامت برپا ہوگا، وہ لاچار بدقسمت باپ کیا جواب دے گا؟
گزشتہ روز کچلاک بائی پاس پر ٹریفک کی رش اور سنگل روڈ کی وجہ سے میرے ماموں کی کار کا ایکسڈنٹ ہوا جس میں میرے ماموں ملک محمد خان کھیتران شہید ہوگئے ، اور اس کے ساتھی ڈاکٹر حمید زخمی ہوئے۔پہلے صرف ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے تھے کہ آج بلوچستان میں ایکسڈنٹ ہوا، اتنے بندے جاں بحق ہوگئے لیکن آج جب میں نے اپنے ماموں کی لاش اپنے ہاتھوں سے اٹھائی تو مجھے اندازہ ہواکہ کتنا مشکل وقت ہوتا ہے جب بغیر کسی گناہ کے، بنا کسی بیماری کے ایک عام انسان اپنے بچوں کی خاطر جب دور دراز علاقوں سے کوئٹہ تک کا سفر ان سنگل روڈوں پر کرتا ہے اور ٹریفک حادثے میں لقمہ اجل بنتا ہے اور اس کی لاش واپس گھر جاتی ہے تو اس کے صرف گھر والوں کی نہیں بلکہ تمام رشتے داروں کی عجیب سے کیفیت ہوتی ہے، غم سے نڈھال ہوتے ہیں۔
بلوچستان ملک کا خوش قسمت یا بدنصیب صوبہ ہے جہاں روز اول سے ہی چند خاندان ہمیشہ صاحب اقتدار بنتے چلے آ رہے ہیں اور وہی صوبے کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں بلوچستان کی بدحالی اور احساس محرومی کا ذمہ دار اسی طرح کی سیاسی قیادت ہے جو ہر حکم بجا لاکر وزارت اور حکمرانی سے مستفید ہوتے آ رہے ہیں جو اپنی وزارت اعلیٰ اور وزارت کے لئے عوام اور صوبے کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔
بلوچستان میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کا قتل کا سلسلہ رک نہ سکا۔ انہیں بھرے بازار میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، سرِعام قتل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کے قتل کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔
اجہاں سے وہ ماہ صیام کے دوران اپنی ضرورت کی اشیاءسستے داموںخریدسکتے ہیںمگر جب عوام سستا بازار کا رخ کرتے ہیں تو انتہائی مایوس ہوکرلوٹتے ہیں اور جب بڑے بازاروں اور مارکیٹوںمیں اشیاءکی قیمتیں دیکھتے ہیں تو وہ بیچارے اپنی جیب کو دیکھ کر محدود اشیاءلے کر صرف گزربسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سے افطاری وسحری کا کچھ انتظام ہوسکے کیونکہ ملک میںمعاشی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے کہ ہماری معیشت لاغر ہوچکی ہے جو گروتھ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
عزیز سنگھور بلوچستان کے تاریخی وادی ’’بولان‘‘ سے پنجاب کی معیشت چلتی ہے۔ پنجاب کی صنعتوں کا پہیہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ بولان کے سنگلاخ پہاڑپنجاب کی فیکٹریوں اور بھٹوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ بولان کے سینے میں دفن بلیک گولڈ یعنی کوئلہ نکالنے کا سلسلہ 1883ء سے شروع کیا گیا تھا۔ اس… Read more »
پاکستان میں کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے روزانہ 100 سے 120 افراد تک مرتے ہیں۔ ہمارے قریبی دوست و احباب اور رشتہ دار اس وائرس کی وجہ سے وفات پاگئے اور معلوم نہیں کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بلکہ پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں تقریبا 26 لاکھ اموات ہو چکی ہیں۔ حکومت کی طرف سے صحیح انتظام اور قانونی سازی نہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس نے زندگی کے ہر شعبہ کو بہت مفلوج کیا ہے خاص کر تعلیم اور تجارت اس سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔