*سینٹ کے انتخابی منڈی میں بی اے پی (باپ) کا امتحان*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان عوامی پارٹی ملک کی سب سے کم وقت میں بننے اور بلوچستان میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے بلاشبہ راتوں رات بنانے والی جماعت کے مہربانوں نے دریا دلی کا بہترین مظاہرہ کرکے اسے کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان جیسے صوبے میں عرصہ دراز سے عوامی مسائل اور صوبے کے حقوق کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر سیاست یعنی قومی اور نیشنلسٹ سیاست کی جا رہی ہے لیکن وہ عوام میں اتنی جلدی اور واضح پذیرائی حاصل کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی کسی سنگل پارٹی نے حکومت نہیں بنا سکی ہے۔



انڈیجینس لوگوں کی دکھ بھری کہانیاں

| وقتِ اشاعت :  


کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل نے گھیرے میں لیاہوا ہے۔ مضبوط پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ہے۔ ان کی مرکزیت پارہ پارہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سیاسی جمود کی وجہ سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کی آبادی کو ہٹایا جارہا ہے۔ ان کی زرعی اراضی کو بلڈر مافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ان کی چراگاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ان کی ماہی گیری کرنے کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ لیاری، ملیر، ہاکس بے، ماری پور، لال بکھر، گریکس ولیج، مبارک ولیج، گڈاپ، منگھوپیر، مواچھ سمیت دیگر قدیم آبادیوں میں ایک بے چینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔



عبدالقادر کا بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں مسند اقتدار پر براجمان جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے بلوچستان سے پارلیمنٹ کی ایوان بالا یعنی سینیٹ کی رکنیت کے لیے عبدالقادر کو نامزد کیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے موصوف کا نام پہلی بار سنا اور میڈیا کی توسط سے اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق موصوف اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں۔ ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر محترم نے کل بتایا کہ موصوف پہلے بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں تھے تاہم ایک روز قبل وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرگئے۔



بلوچستان کی شاہراہوں پر موت کا رقص

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر موت کا رقص جاری ہے ، ایک ہی گھر میں تین تین لاشیں، بہن روئے تو کس بھائی کے لئے، ماں کس بیٹے کی خاطر آنسو بہائے ، شہداء کے لواحقین کے آنسو ختم ہوگئے لیکن حادثات میں مرنے والے کی تعداد میں کمی نہ آئی۔سال 2020ء بلوچستان کے لئے ایک عبرت ناک سال رہا اور سال 2021 کی ابتداء بھی حادثات سے ہوئی، سال کے پہلے روز ہی اس خونی شاہراہ نے لوگوں کے خون سے نئے سال کا جشن منایا ،ایک ہی خاندان کی کئی زندگیاں اس شاہراہ نے چھین لی۔ سوشل میڈیا پران حادثات کے ویڈیو دیکھنا اپنی جگہ، ان حادثات کے بارے میں سن کر انسان کا جسم کانپنا شروع ہوجاتا ہے۔



آئیں عطا شاد سے وفا کریں

| وقتِ اشاعت :  


دو دن پہلے کی بات ہے۔ خاران وشتام ہوٹل کے باہر ہم چند ہم فکر دوست ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف عمل تھے کہ خاران کے ادبی ادارے کے ایک اہم عہدیدار ہمارے قریب آ کر مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا کر کہنے لگا کہ دو دن بعد ہمارے کارگس میں واجہ عطا شاد کا چوبیسواں سالروچ ادبی ادارے کی طرف سے منایا جا رہا ہے ہو سکے تو آپ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آجانا۔ میں نے پوچھا کہ صرف آنا ہے یا واجہ عطا شاد کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع بھی ملے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو ادبی دوست نے تھوڑا مسکرا کے جواب دیا کہ ہمارا مقصد ایک رسماً ادا کر کے سالروچ منانا ہے۔



تھیلسمیا مریضوں کی امیدیں

| وقتِ اشاعت :  


تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔



سینٹ انتخابات! بلوچستان ایک بار پھر غیر مقامی امیدواروں کا اکھاڑہ بننے کو تیار

| وقتِ اشاعت :  


سیاست کو پہلے یعنی ریاست مدینے کے وقت عبادت کا درجہ دے کر خلق خدا اور انسانیت کی خدمت کی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ سیاست میں مکاری دھوکہ دہی اور سیاست کاروباری بننے لگا۔ اب ہم سب بلاشبہ یہ ماننے پر حق بجانب ہیں کہ سیاست آج کل یا موجودہ حالات میں منافع بخش کاروبار کی روپ دھار چکی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے برملا کہا تھا کہ آ جائو سیاست میں لگ گیا تو وزیر نہیں تو فقیر۔ بالکل موجودہ حالات اسی بات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں تاہم عام انتخابات ہوں یا سینٹ، امیدوار دل لٹا کر دولت خرچ کرتے ہیں پاکستانی سیاست دنیا کی نسبت منافع بخش اور طاقت کا محور سمجھا جا تا ہے اسی وجہ سے جس شعبے میں وافر مقدار میںپیسہ،اقتدار طاقت رعب و دبدبہ ہو پاکستانی قوم اس عہدے کیلئے دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔



کینسر خاموش قاتل

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ سال انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2018 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 81 لاکھ کینسر کے نئے کیسز سامنے آئے ۔اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا اور بوڑھا ہونا قرار دیا گیا ہے، ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کا صحت مند نہ ہونا اور بڑی معیشتوں کے ساتھ منسلک افراد کا خطرناک روایتی رہن سہن ہونا ہے۔تاہم اگر اس مرض کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہوجائے تو علاج آسان اور اس سے مکمل چھٹکارا کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔



فورٹ سنڈیمن کا قلعہ اور ژوب شیرانی کی ترقی

| وقتِ اشاعت :  


اگر آپ نے کرکٹ کھیلی ہو یا خاص کر فرسٹ کلاس لیول تک کم از کم کرکٹ کھیلی ہو تو کچھ کھلاڑیوں کیلئے ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ کھلاڑی ( ماٹھا )ہے اسکے معنی ہوتے ہیں کہ کھلاڑی کا کھیل کم از کم درجے سے بھی کم ہے ایسے کھلاڑی پر ٹیم یا خاص کر کپتان کبھی اعتماد نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی ایسے ہی ماٹھے کھلاڑی کھیل کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں ۔بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت میں کپتان کو اور چند ایک کھلاڑیوں کو چھوڑ کر بہت سے کھلاڑی ایسے ہی ماٹھے ہیں جب موجودہ اسمبلی وجود میں آئی تو اسکے دو اراکین کے بارے میں ابتداء میں میری رائے تھی کہ یہ دونوں ماٹھے کھلاڑی ہیں۔



*انوکھی فراڈ، زراعت کی تباہ حالی میں محکمہ زراعت کا کردار*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ملک کے تینتالیس فیصد رقبے پر مشتمل بڑا صوبہ ہے لیکن صوبے کی آبادی زرعی اور مردم شماری کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پورے صوبے میں لاکھوں ایکڑ بنجر اور غیر آباد زمینیں پڑی ہوئی ہیں ۔پانی کی عدم دستیابی اور برساتی پانی کو قابل استعمال یااسٹور کرنے کیلئے ڈیمز کے فقدان کے باعث صوبے میں صرف چار اضلاع دریائی پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں سوائے میرانی ڈیم کے کوئی بڑا ڈیم نہیں۔ صوبے میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے پر حکمرانوں نے کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی ہے۔