جنوب ایشیا ئی زرعی انقلاب کی حقیقت

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ موسم خزاں میں مودی سرکار کی جانب سے’’ زرعی انقلاب‘‘ کے لیے نئے قوانین کے نفاذ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا۔ اس احتجاج کا مرکز ہندوستان میں زرعی اہمیت کی حامل ریاستیں پنجاب، ہریانہ اور یوپی رہیں۔زرعی بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو صرف بھارت تک مخصوص نہیں، دنیا بھر میںجاری متعدد اقدامات کا مقصد زراعت کو زیادہ موثر بنانا اور غربت اور کاشت کاروں کے مالی انحصار کا مقابلہ کرنا ہے۔جنوبی ایشیا میںملازمتوں کا بڑا حصہ زراعت سے جڑا ہے اور اس کا مختلف ممالک کی GDPمیں اہم کردار ہے۔



بلوچستان میں سکون تلاش

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ‘‘کے نام سے ہی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بلوچوں کی سرزمین ہے۔ مگر بلوچستان میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں دوسرے اقوام بھی آباد ہیں اگر کسی مباحثے کا موضوع خالصتاً بلوچستان اور نیند ہو تو پھر بھی ہم ضرور سوچتے ہیں کہ نیند کیا ہے کیسے ہوتا ہے اور کیسے نیند سے سکون ملتا ہے۔ بلوچستان میں نیند بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں نیند ہی سکون ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جب پورے بلوچستان میں ہمارے نظروں کے سامنے کابلی لمبے لمبے گاڑیوں والے گزرتے ہیں تو ہم سوچتے ہیکہ یہ لوگ بڑے پر سکون زندگی گزارتے ہوں گے ۔



منان چوک سے ڈی چوک تک

| وقتِ اشاعت :  


ایک مرتبہ پھر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے میں شدت آگئی ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ایوان صدر پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور عدالت عظمیٰ پاکستان سے چندگز کے فاصلے پر دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ فیملیز نے تمام رکاوٹیں توڑ کر تختِ اسلام آباد تک رسائی حاصل کرلی۔ اس مقام کو ڈی چوک کہتے ہیں۔ ڈی چوک ایک بڑا عوامی چوک ہے جو اسلام آباد میں جناح ایونیو اور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ چوک کئی اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ہے۔ جن میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، مجلس شوریٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پاکستان شامل ہیں۔



بلوچستان کی شاہراہوں پر موت کا رقص

| وقتِ اشاعت :  


افسوس کا مقام ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ابھی تک ایک بھی شاہراہ ڈبل وے نہیں ہے جبکہ پنجاب ودیگر صوبوں کی زیادہ تر شاہراہیں ڈبل وے ہیں یہ سراسر ظلم ہے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ روارکھاجارہاہے۔حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ایک سال کے دوران بلوچستان کے مختلف شاہراہوں پر حادثادث کے سبب سے 8 ہزار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے جبکہ پچھلی دہائی میں دہشتگردی کی وجہ سے مارے گئے افراد کی تعدار 2238 ہے۔



*شہید سمیع مینگل، نئی صبح کی نوید*

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ سال 13 فروری کا دن نوشکی سے تعلق رکھنے والے طالب علم سمیع اللہ مینگل کے خاندان سمیت نوشکی و گرد و نواح کے لیے دل خراش یادیں چھوڑ کر چلاگیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں زولوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم سمیع اللہ مینگل کورونا وائرس کے باعث یونیورسٹی بند ہونے پر گھر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں اپنی ماں کے گود میں لیں اور پھر ہمیشہ کے لیے درد و الم کی داستان چھوڑ کر چلاگیا۔ یہ واقعہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ سمیع اللہ مینگل کا قتل کسی ذاتی یا قبائلی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ نوشکی میں منشیات فروشی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ہوا۔



*سینٹ کے انتخابی منڈی میں بی اے پی (باپ) کا امتحان*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان عوامی پارٹی ملک کی سب سے کم وقت میں بننے اور بلوچستان میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے بلاشبہ راتوں رات بنانے والی جماعت کے مہربانوں نے دریا دلی کا بہترین مظاہرہ کرکے اسے کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان جیسے صوبے میں عرصہ دراز سے عوامی مسائل اور صوبے کے حقوق کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر سیاست یعنی قومی اور نیشنلسٹ سیاست کی جا رہی ہے لیکن وہ عوام میں اتنی جلدی اور واضح پذیرائی حاصل کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی کسی سنگل پارٹی نے حکومت نہیں بنا سکی ہے۔



انڈیجینس لوگوں کی دکھ بھری کہانیاں

| وقتِ اشاعت :  


کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل نے گھیرے میں لیاہوا ہے۔ مضبوط پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ہے۔ ان کی مرکزیت پارہ پارہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سیاسی جمود کی وجہ سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کی آبادی کو ہٹایا جارہا ہے۔ ان کی زرعی اراضی کو بلڈر مافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ان کی چراگاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ان کی ماہی گیری کرنے کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ لیاری، ملیر، ہاکس بے، ماری پور، لال بکھر، گریکس ولیج، مبارک ولیج، گڈاپ، منگھوپیر، مواچھ سمیت دیگر قدیم آبادیوں میں ایک بے چینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔



عبدالقادر کا بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں مسند اقتدار پر براجمان جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے بلوچستان سے پارلیمنٹ کی ایوان بالا یعنی سینیٹ کی رکنیت کے لیے عبدالقادر کو نامزد کیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے موصوف کا نام پہلی بار سنا اور میڈیا کی توسط سے اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق موصوف اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں۔ ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر محترم نے کل بتایا کہ موصوف پہلے بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں تھے تاہم ایک روز قبل وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرگئے۔



بلوچستان کی شاہراہوں پر موت کا رقص

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر موت کا رقص جاری ہے ، ایک ہی گھر میں تین تین لاشیں، بہن روئے تو کس بھائی کے لئے، ماں کس بیٹے کی خاطر آنسو بہائے ، شہداء کے لواحقین کے آنسو ختم ہوگئے لیکن حادثات میں مرنے والے کی تعداد میں کمی نہ آئی۔سال 2020ء بلوچستان کے لئے ایک عبرت ناک سال رہا اور سال 2021 کی ابتداء بھی حادثات سے ہوئی، سال کے پہلے روز ہی اس خونی شاہراہ نے لوگوں کے خون سے نئے سال کا جشن منایا ،ایک ہی خاندان کی کئی زندگیاں اس شاہراہ نے چھین لی۔ سوشل میڈیا پران حادثات کے ویڈیو دیکھنا اپنی جگہ، ان حادثات کے بارے میں سن کر انسان کا جسم کانپنا شروع ہوجاتا ہے۔



آئیں عطا شاد سے وفا کریں

| وقتِ اشاعت :  


دو دن پہلے کی بات ہے۔ خاران وشتام ہوٹل کے باہر ہم چند ہم فکر دوست ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف عمل تھے کہ خاران کے ادبی ادارے کے ایک اہم عہدیدار ہمارے قریب آ کر مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا کر کہنے لگا کہ دو دن بعد ہمارے کارگس میں واجہ عطا شاد کا چوبیسواں سالروچ ادبی ادارے کی طرف سے منایا جا رہا ہے ہو سکے تو آپ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آجانا۔ میں نے پوچھا کہ صرف آنا ہے یا واجہ عطا شاد کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع بھی ملے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو ادبی دوست نے تھوڑا مسکرا کے جواب دیا کہ ہمارا مقصد ایک رسماً ادا کر کے سالروچ منانا ہے۔