عیدالفطر کے موقع پر پاکستان ریلوے نے ملک بھر میں 11 اسپیشل ٹرینیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ریلوے حکام کے مطابق پہلی عید ا سپیشل ٹرین کراچی سے 7 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ دوسری عید اسپیشل ٹرین کراچی سے 8 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ریلوے حکام کے مطابق تیسری عید اسپیشل ٹرین کراچی سے 9 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ چوتھی عیدا سپیشل ٹرین کراچی سے 10 مئی کو لاہور کے لیے چلے ہوگی۔ریلوے حکام کے مطابق کراچی سے راولپنڈی کے لیے عید اسپیشل ٹرین 11 مئی کو چلے گی۔ کراچی سے ملتان کے لیے عید اسپیشل ٹرین 12 مئی کوچلے گی۔
گزشتہ چند روز سے ایسی خبریں رپورٹ ہورہی ہیں جو انتہائی افسوسناک اور دلخراش ہیں، لاک ڈاؤن کے نام پر لوگوں کی تذلیل کی جارہی ہے اور ان کے عزت نفس کو مجروح کیاجارہا ہے اور یہ باقاعدہ ضلعی آفیسران کی سرپرستی میںسیکیورٹی اہلکار کررہے ہیں جس کی آئین بالکل اجازت نہیں دیتا کیونکہ آئین پاکستان میں واضح ہے کہ اپنے شہریوں کی جان ومال ،عزت نفس کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اس طرح کے رویے انسانی اور اخلاقی اقدار کیخلاف ہیں کیونکہ انہی عوام کے ٹیکسز سے ان آفیسران اور اہلکاروں کو تنخواہیںملتی ہیں جن کا بنیادی مقصدعوام کو ہرقسم کا تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت نفس کامکمل خیال رکھنا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عید الفطر پر 10 سے 15 مئی تک کی طویل چھٹیاں دی گئیں ہیں اور زیادہ چھٹیاں دینے کا مقصد لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھنا بتایا گیا ہے۔ساتھ ہی عید کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں اور تفریحی مقامات بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گھروں میں گزاریں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اجلاس میں کورونا ایس اوپیز پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کیلئے مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دینے کافیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی،صوبائی اور ضلعی سطح پر ایس اوپیزپرعملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دی جائے، مانیٹرنگ ٹیمیں 8 مئی سے16مئی کے دوران ایس او پیز پرعملدرآمد یقینی بنائیں گی۔
عالمی یوم صحافت کے موقع پر حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے میڈیا کی غیر جانبداری کے حوالے سے بیانات دیئے گئے جس میں کہاگیا کہ جمہوریت کیلئے آزاد اورغیر جانبدار میڈیا کاکلیدی کردار ہے اور یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ حسب روایت ہر سال یہ خبریں دی جاتی ہیں مگر میڈیا کی غیرجانبدارانہ صحافت اور جمہوریت کے حوالے سے صحافیوں کے عملاََ کردار کو دبانے کیلئے ہر دور میں منفی حربے استعمال کئے جاتے رہے ہیں ۔
گزشتہ چند روز سے بلوچستان کی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتاجارہا ہے ،اطلاعات کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان پیدا ہونے والی اختلافات کے بعد اب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنے ارکان بھی وزیراعلیٰ بلوچستان سے نالاں نظر آتے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنماء سردار صالح محمدبھوتانی سے وزیراعلیٰ بلوچستان نے قلمدان واپس لیکر اپنے پاس رکھ لیا ہے جبکہ اس حوالے سے سردار صالح محمدبھوتانی نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اعتماد میں لئے بغیر میرا قلمدان مجھ سے واپس لیاگیا ہے، سینئر ارکان کے ساتھ رابطہ میں ہوں اور بہت جلد آئندہ کے لائحہ کا اعلان کرونگا ۔
پاکستان تحریک انصاف اول روز سے اپنے اتحادی حکومت کے ساتھ خوش دکھائی نہیں دے رہی خاص کر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے ساتھ پی ٹی آئی بلوچستان کے تعلقات خاص بہتر نہیں ہیں ،وقتاََفوقتاََ بیانات کے ذریعے میڈیا کے سامنے یہ باتیں آتی رہی ہیں جس طرح گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور پی ٹی آئی بلوچستان کے صوبائی صدر اور پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ خیال ہوا۔ سردار یارمحمد رند نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر یہ بات کہی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی محض نوٹیفکیشن کی حد تک ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی نالائقوں کاٹولہ رکھا ہوا ہے۔
کراچی میں این اے 249کے ضمنی انتخاب کا معرکہ پیپلزپارٹی نے مار لیا البتہ 2018ء کے عام انتخابات میں اسی امیدوار کے ساتھ پیپلزپارٹی بہت بڑے مارجن سے ہاری تھی مگر اس بار انہوں نے زیادہ ووٹ لیا جو یقینا ایک حیران کن بات ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن اس بار بھی مقابلہ میں اول پوزیشن پر تھی، اب ایسے میںالیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ جنرل الیکشن کی نسبت اس بار ٹرن آؤٹ کم رہا جبکہ ووٹوںکی تعداد بھی کم تھی اور کراچی جیسے بڑے شہر میں ووٹوںکی گنتی کا عمل اتنی سست روی کا شکار کیوں رہا، پہلے تیزی سے نتائج سامنے آرہے تھے۔
عالمی وباء کورونا کے سبب پاکستان میں مزید 150 اموات اور 5 ہزار 480 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق پاکستان میں کورونا سے اموات کی مجموعی تعداد 17 ہزار 680 تک پہنچ گئی جبکہ متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 8 لاکھ 15 ہزار 711 ہو گئی ہے۔ملک بھرمیں ایکٹو کیسز کی تعداد 89 ہزار 838 ہے اور 7 لاکھ 8 ہزار 193 افراد کورونا سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔کوروناسے زیادہ اموات پنجاب میں ہوئی ہیں جہاں 8 ہزار 327 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ سندھ میں 4 ہزار 629، خیبر پختونخوا 3 ہزار 238، اسلام آباد 677، گلگت بلتستان 106، بلوچستان میں 230سے زائد جبکہ آزاد کشمیر میں 470 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔اسلام آباد میں کورونا کیسز کی تعداد 74 ہزار 640، خیبر پختونخوا ایک لاکھ 16 ہزار 523، پنجاب 2 لاکھ 98 ہزار 818، سندھ 2 لاکھ 81 ہزار 385، بلوچستان 22 ہزار 118، آزاد کشمیر 16 ہزار 931 اور گلگت بلتستان میں 5 ہزار 296 افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انکشافات نے ایک ہلچل مچادی ہے، بشیر میمن کے مطابق انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کیلئے شہزاد اکبر نے کہا تھااور فروغ نسیم نے ان کی حمایت کی تھی۔بشیر میمن نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان سے کہا کہ ہمت کریں، آپ کرسکتے ہیں۔تاہم بشیر میمن کا کہنا ہے کہ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ایف آئی اے کے ضابطہ کار میں ایسے نہیں کیا جاسکتا، یہ کام سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔بشیر میمن کا مزید انکشافات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھ پر نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان، رانا ثنا، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، خورشید شاہ، مصطفیٰ نوازکھوکھر، اسفند یار ولی اور امیر مقام کو گرفتار کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے ملاقات کی ,جو وقت وزیراعظم سے مانگاجارہا تھا بلآخر وزیراعظم نے ملاقات کیلئے وقت دیا اور ان کی باتیںبھی سنیں۔ اس ملاقات کے بعد یہ تاثر ضرورگیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین کے حامی ارکان کے دباؤ میں آئے ہیں اور اس لئے ان سے ملاقات کی کیونکہ ایک بات یہاں واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم اول روز سے یہ بات کہتے آرہے ہیںکہ وہ کسی کے دباؤ اور بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے میرامقصد اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے اور شفاف طریقے کی حکمرانی ہے۔