ملک میں معاشی استحکام اور ترقی کے اہداف کا دارومدار معاشی پالیسیوںپر ہے جس کیلئے اپنی پیداوار اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو بہتر سمت پر لے جایا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہماری معیشت کو سہارا دینے اور سنبھالنے کیلئے قرض لینے کی پالیسی جاری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرض جتنا لیاجائے گا اس کی ادائیگی سود سمیت کی جائے گی اوراس کی وضاحت دینے سے حکمران ہر وقت قاصر ہی دکھائی دیتے ہیں کہ قرض اور سود کی ادائیگی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھانے سے ہی ادا کی جائے گی اور اس کا اعتراف خود حکمران کرتے آئے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد کر دی ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کردیا ۔عدالت نے تحریری فیصلے میں صادق سنجرانی کو ہٹانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت توقع رکھتی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا اور پارلیمنٹ کے مسائل پارلیمنٹ کے اندر ہی حل کیے جائیں گے۔
بلوچستان میں گورننس کی کارکردگی کا گزشتہ دودہائیوں سے حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومتوں کا رویہ جورہا ہے وہ اپنی جگہ ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کو صرف اپنے لئے ایک منافع بخش صوبہ سمجھ کر یہاں کے میگاپروجیکٹس سے منافع ہی حاصل کیا ہے اور اس کے بدلے بلوچستان کو کاغذی اور اعلانات کی حد تک ترقی کے اس مقام تک پہنچایا ہے کہ جہاں پر آج امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔یہ دعوے ہردور میں سننے کو ملتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اب ازالہ کیاجائے گا۔
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ ملتوی کرنے کااعلان گزشتہ دنوں ہی کردیا تھا۔پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد جمعیت علمائے اسلام اور اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سربراہی اجلاس میں نوازشریف، آصف زرداری، ڈاکٹر جمالدین ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے اور اجلاس کا ایجنڈا 26 مارچ کے لانگ مارچ کے حوالے سے تھا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ کورونا کیسز کی شرح 4.5 سے بڑھ کر 9 فیصد پر آ گئی ہے۔ کورونا صورتحال کو سنجیدہ لیا جائے۔ عوام نے احتیاط نہ کی تو صورتحال ہاتھ سے نکل جائے گی۔وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی صحت فیصل سلطان نے کہا کہ کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں دباؤ بڑھ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے تاہم انتظامی کارروائیوں میں کمی دکھائی دے رہی ہے اور شہریوں نے ایس او پیز پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔
افغانستان میں قیام امن کیلئے ماسکو میں جاری مذاکرات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق تمام فریقین نے پائیدار امن کو سیاسی مذاکراتی عمل کے ذریعے ممکن بنانے پراتفاق کیااور تمام فریقین 40سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کوحتمی شکل دیں گے۔افغان حکومت اور قومی مصالحتی اعلیٰ کونسل مسئلے کے حل کیلئے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔اعلامیہ کے مطابق افغان حکومت اورطالبان کسی کواپنی سرزمین کسی دوسرے کیخلا ف استعمال نہ کرنے دیں گے۔ماسکو میں جاری مذاکرات میں افغان تنازع کے تمام فریق تشدد میں کمی لائیں گے۔
اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے، ہم متحد ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم بنارہے تھے تو استعفے کا آپشن رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں 9 جماعتیں ایک طرف ہیں، پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کے فیصلے کا انتظار ہے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف اورسربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔
وفاقی کابینہ نے 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دے دی جس کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 19 اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیرصدارت کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزراء فواد چوہدری اور حماد اظہر نے فیصلوں سے آگاہ کیا۔فواد چوہدری کاکہناتھا کہ غریب طبقے پر رمضان میں بوجھ نہیں پڑنا چاہیے اس لیے حکومت نے 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج کو منظور کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن اس سال کے آخر تک خسارے سے باہر آجائے گی۔
سیاسی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان سیاسی شخصیات کیلئے تذلیل کا باعث بن رہا ہے پہلے بیان بازی کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ان کی نجی زندگی اور خاندان کے افراد کو گھسیٹا جاتا رہا ہے جس میں بچوں سمیت خواتین کو بھی ہدف بنایا گیا اور اب بھی یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے مگر کیا یہ عمل سیاسی اخلاقی اقدار کے پیمانے پر پورااترتا ہے قطعاََ نہیں بلکہ ذی شعور سیاستدان اس طرح کے عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس طرح کے رویوں کوسیاسی عمل کیلئے شدید نقصاندہ سمجھتا ہے کیونکہ جو بھی اس طرح کے عمل کی حمایت کرے گا یقینا مکافات عمل کی صورت میں اسے سامنا کرناپڑے گا۔
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جس کیلئے معاشی انقلاب، گیم چینجرخطہ کے بیانات سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ وفاقی حکومتیں ہر وقت یہ دعوے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کرکے اسے محرومیوں کی طرف دھکیلا گیا ،وفاق کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کے عوام ناراض ہیں اگر بلوچستان پر توجہ دی جاتی تو آج بلو چستان پسماندگی سے نکل کر ترقی کے منازل طے کرتا اور وہاں موجود بے چینی کا خاتمہ ہوجاتا۔ یہ بیانات اوردعوے ہر بار سننے کوملتے ہیں اور بلوچستان کے عوام بھی تھک چکے ہیں دودھ اور شہد کی نہروں کو دیکھتے دیکھتے ، کہ انہیں محض خواب دکھاکر پھر حکمران وہی پرانی روش اپناتے ہوئے بلوچستان کو دیوار سے لگادیتے ہیں۔