وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی پرائس کمیٹیوں کو ختم کردیا ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں مہنگائی کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ نرخوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ذمہ داری ہم نے انتظامیہ کو منتقل کردی ہے۔شبلی فراز نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ پورے شہر میں ایک ہی نرخ پر اشیاء خوردونوش کی قیمت نافذ کرے گی۔ متعلقہ ضلعی انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی ذمہ دار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پیٹرول کی اسمگلنگ روکنے کیلئے موثراقدامات کیے ہیں۔ ریوینیو لیکیج کو روکنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟
وفاقی کابینہ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کی منظوری دیدی ۔اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ سے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کی منظوری سرکلر سمری کے ذریعے لی گئی۔ حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق آرڈیننس تیار کر لیا ہے اور سینیٹ انتخابات سے متعلق آرڈیننس کا مسودہ وزیراعظم کوبھجوا دیا گیا ہے۔
ملک بھرمیں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تقاریب اور ریلیاں منعقد ہوئیں جن میں کشمیریوں کے ساتھ بھرپور انداز میں اظہار یکجہتی کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ پاکستان کشمیریوں کو آزاد رہنے یا پاکستان کا حصہ بننے کا حق دے گا،کشمیری پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں گے۔آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی میں یوم یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ دنیا نے کشمیریوں سے ایک وعدہ کیا تھا، کشمیریوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مسلم امہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دے دی۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔
پاکستان میں کورونا ویکسین لگانے کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور اس حوالے سے تقریب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں ہوئی۔چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بذریعہ ویڈیولنک تقریب میں شروع ہوئے۔ کورونا ویکسین سب سے پہلے اسلام آباد میں ہیلتھ ورکرز کو لگائی گئی۔پہلے روز 40 ہزار ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ آئندہ دنوں میں روزانہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو ویکسین لگوا ئے جائینگے۔خیبرپختونخوا اور سندھ میں بھی کورونا ویکسین لگانے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز اور پھر بزرگ شہریوں کی ویکسینیشن ہو گی۔
بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں اورمحرومیوں کی طویل فہرست ہے اس کی ذمہ داری ہمیشہ وفاقی حکومتوں پر ڈالی گئی ہے گوکہ وفاق کا رویہ بلوچستان کے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں رہا جو بلوچستان کا جائز حق ہے اسے بھی نہیں دیاگیا جس طرح دیگر صوبوں میں ترقی وانفراسٹرکچر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ، وہاں کی عوام کی زندگی بلوچستان کے لوگوں سے بہت بہتراور پر آسائش ہے کم ازکم انہیں بنیادی سہولیات بعض حد تک میسر ہیں مگر ہمارے ہاں تو ترقی کے حوالے سے سوچنا تو اپنی جگہ ،بنیادی سہولیات تک آج تک عوام کو نہیں ملے۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔
پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کا عمل 3 فروری سے شروع ہو گا۔پاکستان میں کورونا ویکسین پہلی کھیپ پاک فضائیہ کا خصوصی طیارہ چین سے لے کر پہنچا۔ ویکسین کو اسلام آباد میں مرکزی اسٹوریج سینٹر میں منتقل کیا جائے گا۔تمام ہیلتھ گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ویکسین وفاقی اکائیوں کو فراہم کی جائے گی جبکہ ویکسین کی منتقلی کے پلان کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرحتمی شکل دے چکا ہے۔ درجہ حرارت کو برقرار اور وقت بچانے کے لیے سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کو ویکسین طیاروں کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ویکسین کی پہلی کھیپ مکمل طور پر کووڈ 19 کے خلاف جنگ لڑنے والے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو لگائی جائے گی۔
بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی کا شکار ہورہے ہیں، عمومی طور پر دو سے زائد گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس جلد ہی کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کے بعد کچھ دیر اور بعدازاں اگلے اجلاس تک کیلئے ملتوی کردیئے جاتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں حکومتی ارکان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن کی دلچسپی بھی محدود دکھائی دیتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی اجلاس کے متعلق ایک تاثر یہ بھی عام ہے کہ طویل اجلاس جاری رہتا ہے جس میں توجہ دلاؤ نوٹس، بل سمیت دیگر معاملات پر ایجنڈے لائے جاتے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت سے بہت ہی مطمئن دکھائی دیتے ہیں ان کی تقاریر سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں دو سال کے عرصہ کے دوران عوام بہت سے چیلنجز وبحرانات سے نکل چکے ہیں جبکہ ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، صحت اور تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے جبکہ زمینی حقائق آج بھی اس کے برعکس ہیں کہ ملک میں عوام کس طرح کے دوہرے عذاب میں زندگی گزاررہے ہیں حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ نظام کو چلانے کیلئے بہت سے معاملات کو سمجھنے میں دیر لگی۔